السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے مکان سے پاؤ کوس کے فاصلے پر ایک جمعہ کی مسجد ہے۔ وہاں کے لوگ اُس مسجد کی حفاظت و مرمت نہیں کرتے ہیں اور اس مسجد کے نزدیک ہی ایک آدمی کا مکان ہے۔ ہمارے یہاں زیادہ لوگ ہیں اور برسات کے ایام میں وہاں جانے میں محض تکلیف ہوتی ہے، یعنی راہ قریب پاؤ کوس کے ہے اور اثنا راہ میں کبھی سینے کبھی کمر تک پانی ہوتا ہے، اس واسطے ہمارے یہاں کے لوگوں نے اپنی بستی میں ایک مسجد بنائی ہے تو اس اطراف کے ایک دوسرے گاؤں میں ایک حاجی مجیر الدین صاحب ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس مسجد کا بنانا جائز نہیں ہے، بلکہ اور لوگ بھی کہتے ہیں، تو اس مسجد کا بنانا جائز و درست ہو سکتا ہے یا نہیں اور نمازِ جمعہ درست ہوسکتی ہے یا نہیں؟ جواب اس کا حدیث و دلیل سے دیجیے، تاکہ جھگڑا طے ہوجائے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس ضرورت سے دوسری مسجد بنائی گئی ہے، اُس ضرورت سے اُس مسجد کا بنانا جائز ہے اور جب ضرورت مذکورہ سے اس مسجد کا بنانا جائز ہے تو جمعہ کی نماز بھی اس مسجد میں جائز ہے۔ صحیح بخاری مع فتح الباری(۱/ ۲۵۸) چھاپہ دہلی میں ہے:
"إن عتبان بن مالک أتیٰ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فقال: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قد أنکرت بصري، وأنا أصلي لقومي، فإذا کانت الأمطار سال الوادي بیني وبینھم، لم أستطع أن آتي مسجدھم، فأصلي بھم، ووددت یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم إنک تأتیني فتصلي في بیتي فأتخذہ مصلی، قال: فقال لہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : سأفعل إن شاء الله تعالی" الحدیث۔[1]
[عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے کہ اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں دیکھ نہیں سکتا اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں، لیکن جب بارشیں ہوتی ہیں تو میرے اور ان کے درمیان والی وادی پانی سے بھر جاتی ہے، جس کی وجہ سے میں ان کی مسجد میں آنے کی طاقت نہیں رکھتا کہ انھیں نماز پڑھا سکوں۔ اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے پاس آئیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں، تاکہ میں اس کو نماز گاہ بنا لوں۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب میں ایسا کروں گا۔ ان شاء اللّٰه ]
(نیز صفحہ : ۴۸۸) میں ہے:
"قال ابن عباس لمؤذنہ في یوم مطیر: إذا قلت: أشھد أن محمداً رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، فلا تقل: حي علیٰ الصلاۃ، قل: صلوا في بیوتکم۔ فکأن الناس استنکروا، فقال: فعلہ من ھو خیر مني، إن الجمعۃ عزمۃ، وإني کرھت أن أحرجکم فتمشون في الطین والدحض"[2]
[سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بارش والے دن اپنے موذن سے کیا: جب تم (اذان میں)"أشھد أن محمدا رسول اللّٰه " کہو تو پھر "حي علیٰ الصلاۃ" نہ کہو، بلکہ کہو:"صلوا في بیوتکم"(اپنے گھروں میں نماز پڑھو) لیکن لوگوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو انھوں نے فرمایا: یہ کام اس ہستی (رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کیا ہے، جو مجھ سے بہت بہتر تھی۔ بے شک جمعہ لازم ہے اور یقینا میں نے ناپسند کیا کہ تم کو باہر نکالوں،پھر تم مٹی اور کیچڑ میں چل کر آؤ]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۸۵۹) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۶۹۹)
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۰۸۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۳۳)