السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک کنویں میں بہت سا پانی ہے اور اس میں ایک کتے کا بچہ گِر پڑا اور زندہ نکال لیا گیا۔ اب دریافت طلب یہ بات ہے کہ پانی کنویں کا ناپاک ہے یا پاک؟ بعض جہلا کہتے ہیں کہ جب تک کل پانی نہ نکالا جائے، تب تک پاک نہیں ہوسکتا۔ آیا وہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں یا غلط؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب کتے کا بچہ کنویں سے نکال لیا گیا اور کنویں میں پانی بہت سا ہے تو اگر پانی دو قلہ یا دو قلے سے زیادہ ہے تو اس کنویں کا پانی پاک ہے۔ ’’حجۃ الله البالغۃ‘‘ (۱/ ۱۴۷ مصری) میں ہے:
(( قولہ صلی الله علیہ: (( إذا کان الماء قلتین لم یحمل خبثاً )) [1] (إلی) وإنما جعل القلتین حدا فاصلاً بین الکثیر والقلیل، لأمر ضروري، لا بد منہ، ولیس تحکما ولا جزافا، وکذا سائر المقادیر الشرعیة (إلی قولہ) وقد أطال القوم في فروع موت الحیوان في البئر والعشر في العشر والماء الجاري، ولیس في کل ذلک حدیث عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ألبتة، وأما الآثار المنقولة عن الصحابة والتابعین کأثر ابن الزبیر في الزنجي، وعلي رضی اللہ عنہ في الفأرة، والنخعي والشعبی في نحو السنور، فلیست مما یشھد لہالمحدثون بالصحة، ولا مما اتفق علیہ جمھور أھل القرون الأولیٰ، وعلٰی تقدیر صحتھا یمکن أن یکون ذلک تطییبا للقلوب، وتنظیفا للماء، لا من جھة الوجوب الشرعي، کما ذکر في کتب المالکیة، ودون نفي ھذا الاحتمال خرط الفتاد، وبالجملة فلیس في ھذا الباب شییٔ یعتد بہ، ویجب العمل علیہ، وحدیث القلتین أثبت من ذلک کلہ بغیر شبھة، ومن المحال أن یکون الله تعالیٰ شرع في المسائل [لعبادہ شیئا زیادۃ] علٰی ما لا ینفکون عنہ من الارتفاقات، وھما مما یکثر وقوعہ، وتعم بہ البلویٰ، ثم لا ینص علیہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم نصا جلیا، ولا یستفیض في الصحابة ومن بعدھم، ولا حدیث واحد فیہ‘‘ و الله تعالیٰ أعلم"[2]
[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جب پانی دو قلے ہو تو وہ گندگی نہیں اٹھاتا۔ آبِ کثیر اور آبِ قلیل کے درمیان قلتین کو ایک ضروری امر کی وجہ سے حد فاصل ٹھہرایا ہے، کسی زبردستی یا اٹکل کے سبب یہ حد بندی نہیں کی اور تمام مقادیر شرعیہ کا یہی حال ہے کہ کسی کے اندر بھی زبردستی اور اٹکل کا دخل نہیں ہے۔ پھر لوگوں نے کنویں کے اندر جاندار کے مر جانے، دہ در دہ اور بہنے والے پانی کے متعلق بہت زیادہ جزئی مسائل نکال لیے، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سب مسائل کے متعلق قطعاً احادیث مروی نہیں ہیں، البتہ جو آثار صحابہ کرام سے، مثلاً: ابن زبیر سے زنگی کے متعلق، علی رضی اللہ عنہ سے چوہیا کے بارے میں اور نخعی اور شعبی سے بلی جیسے جانور کے متعلق مروی ہیں، ان کے متعلق محدثین نے صحت کی گواہی دی ہے نہ قرونِ اولیٰ کے جمہور کا ان پر اتفاق ہے۔ اگر وہ آثار صحیح بھی ہوں تو ممکن ہے کہ وجوبِ شرعی کے طور پر نہیں، بلکہ لوگوں کے دل مطمئن کرنے اور پانی کی نظافت کے لیے ہوں، جیسا کہ کتبِ مالکیہ میں مذکور ہے۔ اگر یہ احتمال صحیح نہیں ہے تو اس میں سخت دقت ہے۔ المختصر اس باب میں کوئی قابلِ اعتماد اور واجب العمل شَے نہیں ہے اور حدیثِ قلتین بلاشبہ ان سب سے زیادہ ثابت ہے۔ نیز یہ امر محال ہے کہ الله تعالیٰ نے ان مسائل میں اپنے بندوں کے لیے ان تدابیر کے اوپر جو ان کے اوپر لازم ہیں، کچھ بڑھایا ہو اور باوجود ان چیزوں کے کثرتِ وقوع اور عمومِ بلوی کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کوئی واضح حکم نہ دیا ہو اور صحابہ کرام میں وہ معروف نہ ہوا ہو اور اس بارے میں ایک بھی حدیث نہ ہو]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
[1] حجۃ اﷲ البالغة (ص: ۳۸۸۔ ۳۹۱
[2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۶۳) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۶۷) سنن النسائي، رقم الحدیث (۵۲) نیز دیکھیں: إرواء الغلیل (۱/ ۶۰)