السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
منی کپڑے میں لگ کر خشک ہوگئی ہو اور وہ منی کسی دوسری نجاست کے ساتھ مخلوط نہ تھی، تو اگر اُس منی کو کپڑے سے کھرچ دیں تو وہ کپڑا پاک ہوجائے گا؟ اس مسئلے کا جواب حنفی مذہب کی رو سے معتبر کتابوں سے مرحمت ہو اور اس سوال کا جواب حدیث کی رو سے کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورتِ مذکورہ سوال میں حنفی مذہب کی رو سے وہ کپڑا پاک ہوجائے گا، اسی طرح حنفی مذہب کی تمام کتب معتبرہ میں مرقوم ہے،چنانچہ چند کتب معتبرہ مذہب حنفی کی عبارات ذیل میں نقل کی جاتی ہیں:
1۔ "فإذا جف ۔أي المني۔ علٰی الثوب أجزأہ الفرک، لقولہ علیہ السلام لعائشة: (( فاغسلیہ إن کان رطبا، وافرکیہ إن کان یابساً )) [1]انتھیٰ‘‘ (ہدایةمطبوعةمطبع مصطفائي، ص: ۵۶)
[پس اگر کپڑے پر منی خشک ہو جائے تو اس کو کھرچنا ہی کافی ہے، کیونکہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا تھا: اگر وہ (منی) تر ہے تو اسے دھو دو اور اگر وہ خشک ہے تو اسے کھرچ دو]
2۔ "وإن جف علٰی الثوب أجزأ فیہ الفرک استحسانا کذا في العنایةانتھی"(فتاویٰ عالمگیري مطبوعة مطبع أحمدي، ص: ۱۶)
[اگر وہ کپڑے پر خشک ہوجائے تو استحساناً اسے کھرچنا ہی کافی ہے]
3۔ " ویطھر مني ۔أي محلہ۔ یابس بفرک ۔ولا یضر بقاء أثرہ۔ إن طھر رأس حشفة۔ کأن کان مستنجیا بماء" انتھی۔ و الله تعالیٰ أعلم (در مختار مطبوعة مطبع ہاشمي، ص: ۳۷)
[منی والی جگہ خشک ہونے کی صورت میں کھرچنے سے پاک ہوجاتی ہے اور اس کے نشان کا باقی رہنا نقصان دہ نہیں ہے، اگر عضو تناسل کا اگلا حصہ پاک ہے، جیسے اس نے پانی کے ساتھ استنجا کیا ہو]
اس سوال کا جواب حدیث سے بھی وہی ہے، چنانچہ ایک حدیث تو خود عبارتِ ہدایہ میں، جو اوپر مذکور ہوئی، منقول ہے، نیز مشکوۃ میں ہے:
"’عن الأسود وھمام عن عائشۃ قالت: کنت أفرک المني من ثوب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رواہ مسلم" [2]
[اسود اور ہمام رحمہما اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو کھرچ دیا کرتی تھی]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
[1] امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ھذا الحدیث لا یعرف، وإنما المنقول أنھا ھي کانت تفعل ذلک من غیر أن یکون أمرھا"(التحقیق في أحادیث الخلاف: ۱/ ۱۰۷) نیز حافظ زیلعی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ’’غریب‘‘ یعنی ضعیف قرار دیا ہے۔ (نصب الرایۃ: ۱/ ۱۸۰) حافظ ذہبی رحمہ ا للہ فرماتے ہیں: "وھذا لا شییٔ، لأنہ بلا سند" (تنقیح التحقیق للذھبي: ۱/ ۳۶) نیز دیکھیں: الدرایۃ لابن حجر (۱/ ۹۱)
[2] دیکھیں: صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۸۸) مشکاۃ المصابیح (۱/ ۱۰۷)