السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کوئی شخص اپنی اولاد یا بھائی کو قرآن مجید مع ترجمہ و قدرے صرف و نحو و عقائد و حدیث پڑھا کر علم انگریزی پڑھوائے و نیز انگریزی کے ساتھ علم دینی بھی پڑھاتا جائے، آیا یہ انگریزی پڑھوانا جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کوئی زبان فی نفسہ مذموم نہیں ہے۔ ہاں ناجائز بات بولنا خواہ کسی زبان میں ہو، البتہ مذموم ہے۔ زبانوں کا اختلاف الله تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَ مِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَ اَلْوَانِکُمْ﴾ الروم، رکوع ۳] یعنی الله تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے آسمان اور زمین کا بنانا اور تمھاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا۔ الله تعالیٰ نے ہر ایک امت میں یقینا رسول بھیجا ہے اور جب کبھی کسی قوم کی طرف کوئی رسول بھیجا ہے تو اسی قوم کی زبان میں بھیجا ہے۔ اللّٰه تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا﴾ سورۂ نحل، رکوع ۵] ’’یعنی بے شبہہ ہے اور بالیقین ہم نے ایک امت میں ایک رسول بھیجا ہے۔‘‘ نیز فرماتا ہے:﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ﴾ سورۂ إبراہیم، رکوع ۱] ’’یعنی ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا، مگر اسی قوم کی زبان میں۔‘‘
ان آیات سے بخوبی ثابت ہے کہ انگریزوں کی طرف بھی بالیقین کوئی رسول بھیجا گیا ہے اور جو رسول بھیجا گیا ہے، انھیں کی زبان میں بھیجا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی زبان انگریزی ہو یا اور کوئی، فی نفسہٖ مذموم نہیں ہے، اس سے ثابت ہوا فی نفسہٖ کسی زبان کا سیکھنا یا سکھانا ممنوع نہیں ہے، بلکہ اگر کسی زبان کے سیکھنے یا سکھانے سے کوئی نیک غرض متعلق ہو تو اس کا سیکھنا یا سکھانا موجبِ اجر و ثواب ہے۔
"عن زید بن ثابت أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أمرہ أن یتعلم کتاب الیھود، حتی کتبت للنبي صلی اللہ علیہ وسلم کتبہ، وأقرأتہ کتبھم إذا کتبوا إلیہ"[1] (رواہ البخاري)
’’یعنی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم کیا کہ یہودیوں کا لکھنا سیکھ لیں، انھوں نے یہودیوں کا لکھنا سیکھ لیا، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط یہودیوں کے پاس لکھ بھیجتے اور یہودیوں کے خطوط جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو ان کو پڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا دیتے۔‘‘ (بخاری شریف، مطبوعہ احمدی: ۲/ ۱۰۶۸)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
[1] صحیح البخاري مع فتح الباري (۱۳/ ۱۸۶) امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث تعلیقاً ذکر کی ہے، البتہ امام ابو داود (۳۶۴۵) اور امام ترمذی (۲۷۱۵) نے اسے موصولاً روایت کیا ہے۔