السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حضرت ام المومنین عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما نے افشاء راز پیغمبر خدا کا کیا، جس کی خبر الله تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۂ تحریم میں بتاکید توبہ دی ہے اور بعدہ الله تعالیٰ نے فعل کو ان کے بلفظ کفر تعبیر فرما کر مثال اُن ہر دو بزرگواروں کی ساتھ زنانِ نوح و لوطi کے دی ہے، جو دونوں کافرہ تھیں اور وہ دونوں حالتِ کفر میں مریں، پس ایسی نص صریح کے مقابلے میں کس آیت قرآنی سے اُن کی توبہ کا ثبوت ہوگا؟ امید ہے کہ ثبوت اس کا نص قرآنی سے فرمایا جائے گا، چونکہ یہ اعتراض شیعوں کی جانب سے ہے۔ اگر انھیں کی معتبر کتابوں سے ثابت کیا جائے تو بہت خوب ہوگا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
: اس سوال میں حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا پر دو الزام قائم کیے گئے ہیں اور ان دونوں الزاموں کی نسبت قران میں نص صریح کے وجود کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
اول: ان دونوں بیبیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو فاش کیا اور اس وجہ سے الله نے توبہ کا حکم نازل کیا تو جب تک ان کی توبہ قرآن سے ثابت نہ ہو، اس وقت تک قابلِ تسلیم نہیں۔
دوم: الله تعالیٰ نے ان دونوں بیبیوں کے فعل کی تعبیر بلفظ کفر کی ہے اور ان کی مثل زنانِ نوح اور لوطi کے ساتھ دی ہے۔
الزام اول دو وجہ سے مدفوع ہے:
اولاً: کسی آیت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا افشائِ راز کیا، بلکہ سورت تحریم میں پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے الله تعالیٰ نے عتاب کے قالب میں خطاب فرمایا ہے کہ اپنی بیبیوں کی خاطر سے الله کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام کیوں کرتے ہو؟
قال الله تعالیٰ:﴿ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ﴾ [التحریم: ۱]
[اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو الله نے تیرے لیے حلال کیا ہے؟ تو اپنی بیویوں کی خوشی چاہتا ہے]
پھر اس کو معاف بھی کر دیا اور فرمایا:﴿وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ التحریم: ۱] [اور الله بہت بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے] اس کے بعد جن بیبیوں نے افشاء راز کیا، جس کا علم صحیح قطعی الله ہی کو ہے کہ وہ فلاں فلاں بیبیاں تھیں، اُن کا ذکر مبہم فرمایا۔ کما قال:﴿وَاِِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ وَاَظْھَرَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ۔۔۔﴾ التحریم: ۳] [اور جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے پوشیدہ طور پر کوئی بات کہی، پھر جب اس (بیوی) نے اس بات کی خبر دے دی] اس کے بعد افشاء راز کرنے والی بیبیوں کو توبہ کی ہدایت فرمائی۔ کما قال:﴿اِِنْ تَتُوْبَآ اِِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا﴾التحریم: ۴] [اگر تم دونوں الله کی طرف توبہ کرو (تو بہتر ہے) کیونکہ یقینا تمھارے دل (حق سے) ہٹ گئے ہیں]
اس کے بعد یہ نصیحت فرمائی کہ اگر تم لوگ آپس میں صلاح و مشورہ کی مدد سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دو گی تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مولا خود الله ہے اور جبرئیل اور صلحاے مومنین اور کل فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مددگار ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم بیبیوں کو طلاق دے دیں گے تو الله تعالیٰ اُس کے بدلے میں اچھی اچھی بیبیاں مومنہ صالحہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے گا۔
کما قال الله تعالیٰ:﴿وَاِِنْ تَظٰھَرَا عَلَیْہِ فَاِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَھِیْرٌ - عَسٰی رَبُّہٗٓ اِِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا﴾ التحریم: ۴، ۵]
[اور اگر تم اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو تو یقینا الله خود اس کا مددگار ہے اور جبریل اور صالح مومن اور اس کے بعد تمام فرشتے مددگار ہیں۔ اس کا رب قریب ہے، اگر وہ تمھیں طلاق دے دے کہ تمھارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں دے دے، جو اسلام والیاں، ایمان والیاں، اطاعت کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں ہوں، شوہر دیدہ اور کنواریاں ہوں]
الحاصل جن بیبیوں کو افشاے راز کی وجہ سے توبہ کی ہدایت ہوئی تھی، اُن بیبیوں کو اگر حضرت طلاق دیتے تو بلاشک اُن سے اچھی بیبیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتیں اور جب نہ قرآن سے اور نہ کسی ایسی حدیث سے جو اہل السنۃ والجماعت یا شیعہ کے یہاں متمسک بہ ہو، یہ بات ثابت ہوئی کہ اُن بیبیوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دی، خصوصاً حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں تمام عمر رہنا اخبار اور واقعاتِ متواترہ فریقین سے ثابت ہے۔ تو لا محالہ اُن بیبیوں کا تائب ہونا قرآن سے ثابت ہوا۔ اس اجمال کی تفصیل یوں ہے کہ اگر ان بیبیوں نے توبہ نہ کی ہوتی اور اُن کی توبہ قبول نہ ہوئی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبغوضاتِ الٰہی کی مصاحبت اور مواصلت ہرگز ہرگز گوارہ نہ فرماتے اور بموجب ایماے حق سبحانہ تعالیٰ ضرور ان بیبیوں کو طلاق دے کر ان سے اچھی بیبیاں ان کے عوض میں الله سے لیتے، نعمتِ الٰہی کو باوجود وعدہ کے ہرگز ترک و رد نہ فرماتے۔ پس ان بیبیوں کو طلاق نہ دینا اور حضرت عائشہ و حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا خصوصاً تمام عمر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں رہنا دلیل صریح اس کی ہے کہ وہ بیبیاں جو مفشی راز ہوئی تھیں، بلاشک و شبہہ تائب ہوئیں اور ان کی توبہ قبول کر کے الله تعالیٰ نے جمیع صفتیں مسلمات و مومنات و قانتات و عابدات وسائحات وغیرہا کی اپنے فضل و کرم سے ان میں جمع کر دیں۔
آیتِ کریمہ:﴿اَلطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ﴾ النور: ۲۶] جو خاصتاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بعد واقعہ سورۂ تحریم کے نازل ہوئی اور کسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل نہ ہوئی، جو شخص اس آیت کی تلاوت کے بعد ازواجِ مطہرات خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مبشر بہ آیت کریمہ:﴿یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ﴾ الأحزاب: ۳۲] کو خباثت اور غیر تائب ہونے کا الزام دے گا، بلاشک و شبہہ وہ شخص خبیث النفس اور بندہ ہویٰ و ہوس ہوگا۔
صرف آیتِ کریمہ:﴿اِِنْ تَتُوْبَآ اِِلَی اللّٰہِ﴾ میں تامل کرنے سے صاف ظاہر تھا کہ جب الله نے خود توبہ کی ہدایت کی اور قبولِ توبہ اس شرط کی جزا مقدر فرمائی تو ضرور وہ حضرات تائب ہوئیں، صراحتاً ان کی توبہ کے ذکر کرنے کی کلام میں کوئی حاجت نہ تھی اور آیت:﴿اِنْ طَلَّقَکُنَّ﴾ وغیرہا تو نص ہے کہ بلاشک ان کی توبہ مقبول ہو کر مراتب و مدارج علیا سے سرفراز ہوئیں۔
ثانیاً: ظاہر ہے کہ افشائِ راز میں حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ذکرِ صریح سے قرآن ساکت ہے، بلکہ ان حضرات کی طرف افشائِ راز کی نسبت صریح صرف حدیث کے رو سے کی جاتی ہے، تو جب حدیث سے ان بیبیوں کا تعین قابلِ تسلیم سمجھا گیا تو پھر حدیثوں سے اور قابلِ اعتبار کیوں نہیں سمجھا جائے گا، جو اس سوال کے جواب میں نص قرآنی کا ہونا ضروری سمجھا گیا ہے۔ بعونہ تعالیٰ اگرچہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کا الزام سے بَری ہونا محض قرآن سے ثابت ہوگیا، پھر جب اس کا تعین حدیث ہی سے ثابت ہے تو دوسرا جواب حدیث سے لیجیے۔
صحیحین میں مروی ہے کہ لوگوں نے مشہور کر دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کو طلاق دی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خبر کو سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ لوگوں نے یہ مشہور کر دیا ہے تو ہم کہہ دیں کہ یہ بات غلط مشہور ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کے پاس آکر بآواز بلند پکار دیا کہ حضرت کے طلاق دینے کی خبر غلط مشہور ہے اور آیتِ کریمہ:﴿وَ اِذَا جَآئَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ وَ لَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلٰٓی اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ﴾ [النساء: ۸۳] [اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے اسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکم دینے والوں کی طرف لوٹاتے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ہیں] نازل ہوئی۔
اسی حدیث میں سورت تحریم کے نزول کا واقعہ مروی ہے کہ جب آیتِ کریمہ:﴿یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَ اُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا * وَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ [الأحزاب: ۲۸، ۲۹] نازل ہوئی، یعنی
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیبیوں سے کہہ دو اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو ہم تم کو مال و متاع دیں اور اچھی طرح سے تم کو رخصت کریں اور اگر تم الله اور اس کے رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو تم محسنات میں سے ہو اور بے شک الله نے محسنات کے لیے بہت بڑا ثواب مہیا کیا ہے۔‘‘
اس آیتِ کریمہ کو سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پڑھ کر سنا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ ہم نے الله اور اس کے رسول اور آخرت کا گھر قبول کیا، پھر اور بیبیوں سے بھی آیتِ کریمہ تلاوت کرنے کے بعد یہی جواب ملا، پس جب ازواجِ مطہرات خصوصاً جن کا زوجیت میں تمام عمر رہنا یقینی ہے، مبشر بہ آیتِ کریمہ:﴿نُؤْتِھَآ اَجْرَھَا مَرَّتَیْنِ وَ اَعْتَدْنَا لَھَا رِزْقًا کَرِیْمًا﴾الأحزاب: ۳۱] [اسے ہم اس کا اجر دو بار دیں گے اور ہم نے اس کے لیے باعزت رزق تیار کر رکھا ہے] اور مشرف بہ آیتِ کریمہ:﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا﴾ الأحزاب: ۳۳] [الله تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے، خوب پاک کرنا] ہیں اور انھوں نے دنیا اور زینتِ دنیا پر لات مار کر الله اور رسول اور دارِ آخرت کو اختیار کیا ہے اور﴿اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾الأحزاب: ۲۹] [تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے] کی خلعت پہنی ہے تو اس سے زیادہ ان کی قبولیتِ توبہ اور ان کے محسنہ ہونے کا ثبوت قرآن و حدیث سے اور کیا ہوگا؟
جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں کو غیر تائب یا غیر محسنہ سمجھے، لا ریب خسر الدنیا والآخرۃ ہوگا۔ اگر ان بیبیوں نے سچے دل سے الله اور رسول اور دارِ آخرت کو اختیار نہ کیا ہوتا یا کسی فاحشہ مبینہ کی معاذ الله حضرت کی زندگی میں مرتکب ہوئی ہوتیں تو ضرور الله تعالیٰ ان کے حال کی خبر اپنے رسول کو دیتا اور ان بیبیوں کو اپنے رسول کی صحبت سے جدا کر دیتا، چنانچہ الفاظِ قرآن جو کچھ سورت تحریم اور سورت احزاب میں ہیں، صاف صاف اس امر پر دال ہیں، جو ادنیٰ تامل سے ہر ذی فہم پر ظاہر ہے تو جب تک قرآن سے یا حدیث صحیح سے، اگرچہ شیعوں کے یہاں حدیث صحیح سے، یہ ثابت نہ ہو کہ ازواجِ مطہرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی بی بی نے بعد آیتِ کریمہ﴿قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ﴾ کے معاذ الله کسی فاحشہ مبینہ کا ارتکاب کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجیت سے اس کو نکال دیا، یعنی طلاق دے دی، اس وقت تک خیالاتِ باطلہ ایسی مقدس بیبیوں کی نسبت ظاہر کرنا سخت جہالت ہے۔
افسوس ہزار افسوس کہ خیالاتِ باطلہ اور توہمات رکیکہ سے اَبرار کی اگر طرف برائیوں کا انتساب کیا جائے۔ ہائے اتنا بھی پیغمبر کا لحاظ نہیں کہ پیغمبر کی بیبیوں کی شان میں یہ تہمت تراشیاں اور اپنے حقیقی عیوب کا تذکرہ اگر کسی سے سنیں تو اس کی جان کے دشمن ہوجائیں۔ نعوذ ب اللّٰه من الجھل والحمق والکفر۔
الزامِ ثانی بھی دو وجہ سے مدفوع ہے:
اولاً: الله تعالیٰ نے کسی جگہ محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بی بی کے کسی فعل کو بلفظ کفر تعبیر نہیں کیا اور نہ کسی بی بی کی مثال زنانِ نوح و لوط علیہما السلام کے ساتھ دی ہے اور بعض بیبیوں نے جو افشاءِ راز کیا، وہ کوئی ایسے امر سے متعلق ہی نہ تھا
کہ اُس میں کفر کا وہم ہو۔ بات تو یہی تھی جو حدیثوں سے سنی و شیعہ دونوں کے یہاں ثابت ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اِذن لے کر اپنے باپ کے گھر کسی ضرورت سے گئی ہوئی تھیں اور ان کی غیبت میں اُن کے فراش پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماریہ قبطیہ اپنی لونڈی کی عزت افزائی کی۔ اُسی دوران میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا لوٹ کر آگئیں اور اس امر سے مطلع ہو کر انھوں نے بہت کچھ رنج وغیرہ ظاہر کی اور رو کر کہنے لگیں کہ میری جگہ پر لونڈی سرفراز کی جائے!!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی خاطر سے فرمایا کہ ہم نے ماریہ قبطیہ کو حرام کر لیا، اس کو کسی پر ظاہر نہ کرنا، جس پر آیتِ کریمہ نازل ہوئی:﴿ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ﴾ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کمال مسرت سے اور بمقتضائے اُس جبلت کے جو عورتوں میں ہوتی ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہہ دیا کہ حضرت نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کو دنیا کے امور سے سمجھ کر اس کی اطاعت ضروری نہ سمجھا۔ یہ قصورِ فہم ہوا۔
اس خبر کی شہرت سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج ہوا، لہٰذا الله تعالیٰ نے توبہ کی ہدایت فرمائی اور تہدید کی۔ بعض روایت میں وہ راز یوں مروی ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض ازواج کے یہاں شہد پیا کرتے تھے اور بیبیوں پر یہ شاق گزرا تو صلاح کر کے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اِن لوگوں نے یہ بات کہی کہ آپ کے پاس سے مغافیر کی بو آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے شہد پیا ہے، اب پھر اس کو نہ پیوں گا، اس کو کسی سے ظاہر نہ کرنا، جن بی بی سے کہا تھا، وہ کمال خوشی سے کہ اب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہد نہ پینے جائیں گے، نہ زیادہ قیام فرمائیں گے، نہ ہم لوگوں کو رشک ہوگا، دوسری بی بی سے کہہ دیا، اس پر آیت مذکور الصدر سورۂ تحریم کی نازل ہوئی۔
الحاصل روایت کوئی ہو، وہ بات جو ظاہرکی گئی، اُس کو بیبیوں نے امورِ دین سے نہ سمجھا اور یہ نہ سوچا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ظاہر کر دینے میں اگر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج و اذیت ہوگی تو الله کا عتاب ہوگا۔ گو بات تو خفیف و حقیر ہے، بات محبوبِ رب قدیر کی ہے۔ آخر الله تعالیٰ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت جو اس بات کے افشا سے آپ کو پہنچی پسند نہ آئی، لہٰذا بیبیوں پر تہدید اور چشم نمائی کر دی اور جو کچھ ان آیتوں میں بحث ہے، الزام اول کے جواب میں مذکور ہے اور کہیں الله تعالیٰ نے ان بیبیوں کے کفر کی طرف اشارہ کیا ہے اور نہ زنانِ نوح و لوطi کے ساتھ ان کی مثال دی۔
ثانیاً: معلوم ہو کہ شاید سائل نے تمھیں آیتِ کریمہ:﴿ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ﴾ التحریم: ۱۰] [الله نے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان کی، وہ ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں] سے سمجھا ہے کہ یہ آیت بھی اول سورۂ تحریم میں ہے اور اس میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی عورتوں سے بحث ہے، لہٰذا﴿اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ کا مصداق معاذ الله حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج طیبات کو اور ان کے فعل کو معبر بکفر سمجھا، ان کی مثال امراۃِ نوح و لوط کے ساتھ دی ۔نعوذ ب الله من ذلک۔ حالانکہ سائل اگر اس قدر بھی خیال کرتا کہ یہ آیت آخر سورہ تحریم میں ہے اور﴿وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ﴾ اول سورہ میں ہے، درمیان میں اور
امور سے بحث ہے تو اس کا ذہن اس سوال کی طرف نہ جاتا اور ذی فہم پر تو یہ امر خوبی منکشف ہے کہ﴿ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ سے قبل یہ آیتِ کریمہ ہے:﴿ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾ التحریم: ۹] [اے نبی! کفار اور منافقین سے جہاد کر اور ان پر سختی کر اور ان کی جگہ جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے]
صریح﴿کَفَرُوْا﴾ صیغہ جمیع مذکر غائب کا ہے اور﴿اَلَّذِیْنَ﴾ اسم موصول جمع مذکر کے لیے ہے، اس سے وہی کفار اور منافقین مقصود ہیں،جن کا ذکر صدرِ آیت میں ہے۔ زبردستی عورتوں کی طرف وہ بھی عورتیں مومنہ وہ بھی محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں کی طرف ضمیر پھیر دی جائے تو اس کا کیا علاج ہے؟ باقی رہی تمثیل امراۃِ نوح اور امراۃِ لوط کی اور شاید سائل کو اسی نے دھوکے میں ڈالا ہے تو قطع نظر اس کے کہ ممثل لہ مذکر ہے اور﴿اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ مذکر کے لیے ہے، اصل مقصود ظاہر کیا جاتا ہے۔
ظاہر یہ ہے کہ پہلے الله تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار اور منافقین سے جہاد کا حکم دیا، اور اس لیے کہ کفار اور منافقین میں اکثر عزیز و قریب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے تھے، لہٰذا الله تعالیٰ نے ان کے مقابلے میں امرا ۃِ نوح اور لوط کی مثال بیان فرمائی کہ قرابت اور معیت نبی کی کافر و منافق کو مفید نہیں، جس طرح امرا ۃِ نوح اور لوط کو نبی کی قرابت اور معیت بوجہ کفر کے مفید نہیں ہوئی، اس جگہ عورت کی مثال میں دو نکتے ہیں۔
اولاً یہ کہ مرد پر جس قدر بارِ کفالت زوجہ کا اور اس کو تعلق زوجہ کے ساتھ ہوتا ہے، اس قدر دوسرے قریب کے ساتھ نہیں ہوتا تو جب زوجہ کافرہ کی زوجیت نبی کے ساتھ کے باوجود بارِ کفالت و قوتِ تعلق کے کچھ مفید نہیں تو دوسری قرابت کا تعلق کافر کا نبی کے ساتھ کب مفید ہوگا؟ اس کے ساتھ جہاد اور اس کا قتل بر تقدیر کفر ہرگز محلِ تامل نہیں۔
ثانیاً یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت ناقص العقل اور ناقص الفہم ہوتی ہے، اس کی شان سے وقوعِ خطا اکثری ہے، لہٰذا عورت کی گرفت بمقابلہ مرد کے مناسب نہیں ہے، لیکن کفر و شرک وہ خطا افحش ہے کہ نبی کی بیبیاں جو اس میں مبتلا ہوئیں تو ان کو نبی کی زوجیت باوجود عورت اور ناقص العقل ہونے کے کچھ کام نہ آئی، دیکھو امرا ۃِ نوح اور لوط کو، پھر جب عورتوں کا یہ حال ہے تو کفار اور منافقین جو رجال ہیں، تو ان کو نبی کی قرابت کب کام آسکتی ہے، ان سے ضرور جہاد کرو، بلکہ﴿وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَمَاوَاھُمْ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْر﴾ اور جب الله تعالیٰ نے کافروں کے لیے مثال دی کہ کافر کو نبی یا ولی کی قرابت کام نہیں آتی تو مومن کی قرابت کافر سے مومن کو مضر ہوگی یا نہیں؟ تو اس کا بتانا بھی مناسب مقام ہوا، لہٰذا الله تعالیٰ نے امرا ۃِ نوح و لوط کے بعد امرا ۃِ فرعون اور حضرت مریم علیہا السلام[ کی مثال مومنین کے لیے دی۔ اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ! اِِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ* وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ﴾التحریم: ۱۱، ۱۲]
[اور الله نے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی، جب اس نے کہا: اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا لے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔ اور عمران کی بیٹی مریم کی (مثال دی ہے) جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی ایک روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت کرنے والوں میں سے تھی]
حاصل یہ کہ ایمان مضبوط ہونا چاہیے، اگر ایمان مضبوط ہے تو نجات ہے، جس طرح زنِ فرعون کہ عورت ہو کر کامل الایمان تھیں تو فرعون کی زوجیت و معیت اور اس کا ظلم ان کے ایمان اور عاقبت کے لیے کچھ بھی مضر نہ ہوا، اسی طرح جن لوگوں کا ایمان کامل ہے، اگرچہ ان کے عزیز و اقارب کافر ہوں، لیکن وہ ہر گز اپنے ایسے قرابت مندوں کا لحاظ و خیال نہیں کرتے اور ان کی معیت سے پناہ اور نجات کی دعا کرتے ہیں۔ اس تمثیل سے اچھی طرح واضح ہوگیا کہ جانبین تمثیل میں بصورت تحقق علاقہ زن و مرد ہونے کا اختلاف ہرگز مانعِ تمثیل نہیں۔
الحاصل دونوں آیتوں میں دونوں مثالیں اس غرض سے دی گئی ہیں کہ کافر اور منافق سے جہاد میں تغافل و تکاسل بہ پاسِ قرابت نہ ہو اوردونوں مثالوں میں عورت ہی کی مثال دی گئی، تاکہ مردوں کو غیرت آئے کہ ایمان میں پاسِ قرابت کیسا؟ کافر باپ ہو اور خدا کی مقرر کی ہوئی شرائط پائی جائیں تو قتل کر دو، الله کے دشمن کو زمین پر حتی الامکان نہ چھوڑو اور حضرت مریم[ کی تمثیل سے اس سورۂ مبارک میں ایک فائدہ عظیم یہ ہے کہ اول سورہ میں ازواجِ مطہرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت چشم نمائی اور ان کی تعلیم ہوئی، جس طرح خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تعلیم ہوئی:
﴿ ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۔۔۔﴾ التحریم: ۱]
[اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو الله نے تیرے لیے حلال کیا ہے؟]
تو اس قدر عتاب بھی منافقین کے لیے موجبِ مضحکہ اور طعن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں کے ساتھ ہوا، حالانکہ الله تعالیٰ نے اُن کی خطا کو عفو کر کے بڑے بڑے مراتب اور مدارج عنایت فرمائے، ۔کما سبق۔ تو الله تعالیٰ نے حضرت مریم[ کی مثل کے ساتھ ازواجِ مطہرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مومنین کو تسکین دی کہ اگر منافقین کچھ مضحکہ و طعن مقدس بیبیوں کی شان میں کر لیں تو صبر مناسب ہے، جس طرح حضرت مریم[ کو ان کی قوم نے معاذ الله زنا کی تہمت دی، مگر انھوں نے صبر کیا اور صابرین و قانتین میں داخل ہوئیں اور کفار و منافقین کے ساتھ الله تعالیٰ نے جہاد اور سختی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سورہ میں حکم دیا۔ اگر مخالف کو عقل اور تمییز ہو تو اب سے بھی سنبھل جائیں اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں کی شان پاک میں بیہودہ گوئی نہ کریں۔ سوال اول کا جواب تمام ہوا۔
صحیح مسلم (۲/ ۳۹۴) میں ہے:
"عن عائشة سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یقول: لا یذھب اللیل والنھار حتی تُعبُدُ اللّاتِ[1] والعزی۔ فقلت: یا رسول الله إن کنت لأظن حین أنزل الله﴿ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ﴾ إلی قولہ﴿وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ﴾ أن ذلک تام۔ قال: إنہ سیکون من ذلک ما شاء اللّٰه ، ثم یبعث الله ریحا طیبۃ فتوفي کل من في قلبہ مثقال حبۃ من خردل من إیمان فیبقیٰ من لا خیر فیھم فیرجعون إلی دین آبائھم"[2]
’’یعنی دنیا ختم نہ ہوگی، اے عائشہ! جب تک کہ تم لات و عزی کو نہ پوجو۔ کہا ام المومنین نے اے رسول اللّٰه ! مجھے گمان تھا کہ جو مشرف بہ اسلام ہوا، رستگار ہے۔ فرمایا حضرت نے کہ عنقریب میرا گفتہ واقع ہوگا، یعنی جس کے قلب میں برابر دانہ خردل کے ایمان نہ ہو، اگرچہ بظاہر مومن ہو، اپنے دینِ آباءِ کفار میں داخل ہوتا ہے۔‘‘
یہ حدیث و ترجمہ اس کا مجمع البحرین سے نقل کی گئی ہے، فقط۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ عائشہ نے لات و عزی کی پرستش کی اور طرف دین کفار کے اپنے کو رجوع کیا۔ اگر یہ امر واقع نہ ہوا تو معاذ الله پیغمبر خدا پر جھوٹ فرمانا لازم آتا ہے اور اگر بموجب خبر کے صنم پرستی عائشہ سے صادر ہوئی تو ان کے کفر میں کیا شک ہے؟ فقط
میں نہیں جانتا کہ صاحبِ مجمع البحرین کون شخص اور کس پایہ کا آدمی ہے اور اگر سائل کی نقل صحیح ہے اور جو عبارت ترجمہ کی سائل نے نقل کی ہے، وہ عبارت در حقیقت صاحب مجمع البحرین کی ہے تو صاحب مجمع البحرین محض ایک سادہ آدمی معلوم ہوتا ہے، اس کے ترجمہ کو حدیث سے کچھ تعلق نہیں اور ترجمہ کی صحت تو ایک طرف، صیغہ تک نہیں پہچانتا۔ شاید میزان بھی یاد نہیں ہے۔ حدیث کو صیغہ واحد مونث حاضر مضارع معروف اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب اور ضمیر مخاطب کو فاعل سمجھا ہے، حالانکہ میزان پڑھنے والا طالب العلم بھی اس صیغہ کو ایسا نہ سمجھتا۔ صیغہ واحد مونث غائب مضارع مجہول کا پڑھتا اور صیغہ واحد مونث حاضر مضارع معروف سمجھنے والے کو ہنستا اور کہتا کہ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خطاب ہوتا اور صیغہ واحد مونث حاضر مضارع معروف کا استعمال مقصود ہوتا تو "تعبدین" اور"أن"مقدرہ بعد"حتی"کے عمل سے نون اعرابی گر کے ’’تعبدي‘‘ پڑھا جاتا۔ اب صاحبِ مجمع البحرین کی غلطی کہاں تک بیان کریں؟ حدیث کا ترجمہ صحیح بیان کر دیتے ہیں، اس سے ناظرین غلطی سمجھ لیں گے اور سوال کا لغو ہونا جان جائیں گے۔
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ رات
اور دن ختم نہ ہوجائے گا جب تک لات و عزی پوجی نہ جائے گی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللّٰه ! میں تو سمجھتی تھی کہ آیت کریمہ:﴿ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ﴾ إلی قولہ﴿وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ﴾ جس وقت اتری، یہ امر پورا ہونے والا ہے (یعنی سواے دینِ اسلام کے کوئی دوسرا دین نہیں رہے گا اور آخر تک اسلام ہی کو قیام و ثبات رہے گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا ہوگا، جب تک الله کو منظور ہے، پھر الله تعالیٰ ایک خوشبودار ہوا بھیجے گا، جس کی وجہ سے ہر مومن جس کے دل میں دانہ خردل برابر بھی ایمان ہوگا، مر جائے گا اور جس میں نہ ہوگا وہی لوگ باقی رہ جائیں گے اور وہ لوگ اپنے باپ دادا کے دین پر لوٹ جائیں گے (تو جس کے باپ دادا لات و عزی پوجنے والے تھے، وہ لات و عزی کو پوجنے لگیں گے اور پھر دنیا ختم ہوجائے گی اور قیامت آئے گی۔ فقط)
بھلا حدیث سے اور سوال سے کیا واسطہ ہے؟ اگر ہم حسبِ زعم باطل سائل فرض بھی کر لیں کہ وہ صیغہ واحد مونث حاضر مضارع معروف کا ہے تو اس وقت حدیث کا مطلب یہ ہو جائے گا کہ اے عائشہ! جب تک تم لات و عزیٰ کو نہ پوجو گی، اس وقت تک دنیا ختم نہ ہوگی اور وہ زمانہ وہ وقت ہوگا کہ اس وقت سوا بت پرست مشرکین کے کوئی مومن زندہ نہ ہوگا تو معاذ الله اس سے تنہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کا بت پرست ہونا لازم نہ آئے گا، بلکہ اکثر اہلِ بیت اطہار و ائمہ اہلِ بیت رحمہم اللہ کا بھی بت پرست ہونا لازم آجائے گا، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا کوئی زمانہ کوئی دن کوئی آن تمام عمر نہ گزرا کہ اس وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کوئی امام ائمہ اہلِ بیت اور رجال و نسائِ اہلِ بیت میں سے نہ رہا ہو۔ سائل سے کمال تعجب ہے کہ مجمع البحرین کے ایک غلط ترجمے کے بھروسے پر سوال کر بیٹھا، یہ بھی نہ سوچا کہ اس حدیث کی راوی خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، وہ کیونکہ ایسی حدیث کو دعویٰ مومنیت کے ساتھ اعلان کرتیں۔ ضرور صاحبِ مجمع البحرین سے حدیث کے سمجھنے میں غلطی فاحش ہوئی ہے یا نقل ہی صحیح نہ ہو۔
بخاری (۵/ ۱۶۰) میں ہے: "قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم خطیبا فأشار نحو مسکن عائشۃ فقال: ھھنا ثلاثاً من حیث یطلع قرن الشیطان"
’’فرمایا رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے طرف خانہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے تین بار کہ اس جگہ شاخ ابلیس کی ہے۔‘‘ یہ حدیث اور ترجمہ مجمع البحرین سے لکھا گیا ہے، اس حدیث سے صاف پایا جاتا ہے کہ اس گھر میں ضلالت بھری ہوئی تھی اور یہاں پر شاخِ ابلیس سے کیا مراد ہے اور سخت تردد کا مقام ہے کہ جس گھر میں شاخِ ابلیس ہو، وہاں پیوستہ پیغمبر خدا کی اوقات بسر ہو، در بعد رحلت کے وہی خانہ عائشہ مدفن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہو۔ فقط
اس حدیث میں لفظ ’’فتنہ‘‘ و ’’قام‘‘ کا سائل نے شاید غلطی سے نہیں لکھا، ورنہ لفظ حدیث کا یوں ہے:
"عن نافع عن عبد الله قال: قام رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم خطیبا فأشار نحو مسکن عائشۃ فقال: ھنا الفتنۃ ثلاثاً من حیث یطلع قرن الشیطان" [1]
[نافع رحمہ اللہ عبد الله رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے بیان کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطاب کیا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف تین بار اشارہ کر کے فرمایا: یہاں فتنہ ہوگا، جہاں سے شیطان کا سینگ (شاخ) نکلے گا]
اس حدیث میں قرنِ ابلیس سے وہی مراد ہے، جو سائل نے سمجھا ہے، یعنی ضلالت و فتنہ۔ باقی رہا حدیث کا مطلب تو اس حدیث میں ظاہراً تین احتمال ہیں:
احتمال اول یہ ہے کہ طلوع ہونا قرنِ ابلیس کا حضرت عائشہ کے گھر سے مراد ہے۔
احتمال ثانی یہ ہے کہ قرنِ ابلیس سے معاذ الله صاحبِ خانہ، یعنی حضرت عائشہ کی ذات مراد ہے۔
احتمال ثالث یہ ہے کہ طلوع ہونا قرنِ ابلیس کا اس جانب سے مراد ہے، جس جانب حضرت عائشہ کا مسکن تھا اور وہ مشرق کی طرف تھا، یعنی مشرق کی جانب سے فتنہ اُٹھے گا۔
احتمال اول تو صریح باطل ہے، جو سائل کے نزدیک بھی محل تردد ہے، چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی، اور پھر باوجود اور احتمالات کے اس احتمال کو متعین کر کے ناحق تردد اور گمراہی میں کیوں پڑے؟
احتمال ثانی کے یقین پر باوجود احتمال ثالث کے کوئی دلیل نہیں، خصوصاً یہ احتمال احتمال اول سے بھی زیادہ تردد میں ڈالتا ہے اور مومن کی شان سے بہت بعید ہے کہ اس احتمال کو متعین کرے اور کیونکر اس احتمال کو کوئی مومن متعین کر سکتا ہے کہ اس میں صریح اہانت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوتی ہے۔
اگر یہ احتمال فی الواقع صحیح ہوتا تو بعد علم کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسی زوجہ کی صحبت ایک آن کے لیے بھی گوارا نہ کرتے، چہ جائیکہ اور کثرت صحبت و محبت کی ہو اور تمام صحابہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ضلالت و فتنہ کا شعور ہوجاتا، خصوصاً راوی اس حدیث کے عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما کبھی اکرام اور احترام حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نہ کرتے اور ان کے فضائل اور مناقب مشہور نہ کرتے، کیونکہ ان کے مناقب اور اس احتمال ثانی میں بہت بڑا تعارض اور تضاد ہے تو باوجود ان قباحتوں کے اور احتمال ثالث کے ہوتے ہوئے کسی مومن کا کام نہیں کہ احتمال ثانی کو متعین کرلے اور جب احتمال ثانی بھی کسی طرح متعین نہیں ہوسکتا تو لا محالہ احتمال ثالث متعین ہوا اور اس حدیث کے رو سے کسی اعتراض یا خدشہ اور شبہہ کرنے کی جگہ باقی نہ رہی اور قطع نظر اس بحث کے احتمال ثالث کا تعین دلیل سے ثابت ہے۔
اولاً یہ کہ"نحو مسکن عائشۃ"لفظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہے، بلکہ یہ لفظ راوی کا، یعنی عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما کا ہے، جو کلمہ "ھنا"کی شرح میں مذکور ہوا ہے اور یہی عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس واقعہ کی دوسری روایت میں اس کلمہ"ھنا" کی شرح
میں یہ عبارت فرماتے ہیں: "أومیٰ بیدہ نحو المشرق"[1] (کما رواہ مسلم) [(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) اپنے ہاتھ کے ساتھ مشرق کی طرف اشارہ کیا] خود بخاری نے کتاب الفتن میں انھیں عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی واقعہ میں یہ حدیث مرفوع روایت کی ہے: "عن عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما أنہ سمع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وھو مستقبل المشرق یقول: ألا إن الفتنۃ ھنا من حیث یطلع قرن الشیطان" [2] [عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرق کی طرف منہ کر کے یہ کہتے ہوئے سنا: خبردار! یہاں سے فتنہ اٹھے گا جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا]
مسکن عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس وقت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے پورب ہی طرف تھا، چنانچہ قسطلانی شرح بخاری میں لکھتے ہیں:"فأشار نحو مسکن عائشة أي ھنا فقال: ھنا أي جانب الشرق" [3] [پس (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) مسکن عائشہ کی طرف، یعنی یہاں کہہ کر اشارہ کیا اور فرمایا: یہاں سے، یعنی جانبِ مشرق سے] اس تحقیق سے اور ان تینوں روایتوں کے ملانے سے ’’کالشمس في نصف النہار‘‘ روشن ہو گیا کہ حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما کا مقصود"ھنا" کی شرح میں جانب مشرق کی تعیین ہے، نہ کہ تعیین مسکنِ عائشہ بخصوصہ۔ کسی سے "نحو المشرق"، کسی سے"وھو مستقبل المشرق" فرمایا، کسی سے "نحو مسکن عائشة" بھی سہی، کیونکہ مسکنِ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما مشرق کی جانب تھا، غرض کہ الفاظ تین ہیں اور مقصود واحد، یعنی جانب مشرق سے فتنہ اور قرنِ ابلیس کا ظہور ہوگا۔
ثانیاً: ظہورِ فتنہ و قرنِ ابلیس جانب مشرق میں جس مقام سے ہوگا، دوسری حدیث مرفوع سے وہ مقام بھی متعین ہے، یعنی نجد جو مدینے سے جانبِ مشرق ہے۔ بخاری نے کتاب الفتن میں انھیں عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے:
عن نافع عن ابن عمر قال: ذکر النبي صلی اللہ علیہ وسلم : (( اللھم بارک لنا في شامنا، اللھم بارک لنا في یمننا )) قالوا: یا رسول اللّٰه ! وفي نجدنا؟ قال: (( اللھم بارک لنا في شامنا، اللھم بارک لنا في یمننا )) قالوا: یا رسول اللّٰه ! وفي نجدنا؟ فأظنہ قال في الثالثۃ: (( ھناک الزلازل والفتن، وبھا یطلع قرن الشیطان، یبدأ من المشرق )) [4]
[نافع رحمہ اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا: اے اللّٰه ! ہمارے شام میں برکت فرما۔ اے اللّٰه ! ہمارے یمن میں برکت فرما۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے نجد میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے الله ہمارے شام میں برکت فرما۔ اے اللّٰه ! ہمارے یمن میں برکت فرما۔ انھوں نے عرض کی: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے نجد میں؟ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہیں سے طلوع ہوگا]
شرح قسطلانی میں ہے:"نجد۔ بفتح النون وسکون الجیم۔ قال الخطابي: نجد من جھة المشرق، ومن کان بالمدینة کان نجدہ بادیة العراق، ونواحیھا، وھي شرق أھل المدینة"[1] [’’نجد‘‘ نون کی زبر اور جیم کی سکون کے ساتھ ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے فرمایا: نجد مشرق کی جانب ہے، جو شخص مدینے میں ہو، اس کا نجد بادیہ عراق اور اس کے نواحی میں آتا ہے اور وہ اہلِ مدینہ کا مشرقی حصہ ہی بنتا ہے] اب بعد ان دلائلِ ساطعہ و براہینِ قاطعہ کے احتمال ثالث اچھی طرح متعین ہوگیا ولا محذور فیہ۔
جناب پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کو بعد افشاءِ راز کے طلاق دیا اور طلاق عائشہ بدست علی سپرد کیا، چنانچہ حضرت علی نے بعد جنگِ جمل کے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دیا اور زوجیتِ پیغمبرِ صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے خارج کر دیا؟
یہ محض غلط اور بے اصل بات ہے۔ اگر دعویٰ ہے تو کسی کتاب معتبر کی روایت صحیح سے، عام اس سے کہ وہ کتاب سنی کی ہو یا شیعہ کی، ثابت کیا جائے اور اس دعوے کا جھوٹا اور اس قول کا اتہام محض ہونا اس شخص پر ظاہر ہوگا، جس نے فریقین کی کتبِ معتبرہ اور روایاتِ صحیحہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت اور وفات کا واقعہ دیکھا ہوگا اور صحابہ کی روایات ازواجِ مطہرات خصوصاً حضرت عائشہ و حضرت حفصہ و اُم سلمہ وغیرہن رضی اللہ عنہما سے دیکھی ہوگی اور اس سوال کے واضع سے سخت تعجب ہے کہ اس نے یہ خیال نہیں کیا کہ کہیں قرآن و حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہے کہ زوج کی موت کے بعد زوجہ مطلقہ ہو؟!
تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ شیخین رحمہما اللہ کو پہلوے مبارک میں جناب پیغمبرِ خدا کے عائشہ نے دفن ہونے دیا اور ان کے فرزند امام حسن کو اپنے جد امجد کے پہلو میں دفن ہونے سے باز رکھا، بلکہ لاش حسن علیہ السلام پر اس قدر تیر باران کیا کہ کئی تیر ان کی کفن میں چسپاں ہو گئے۔ اگر عائشہ کو دعویٰ ملک تھا تو اس کا ثبوت کافی ہونا چاہیے اور اگر ترکہ کا زعم تھا تو عباس عم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا بھی اس مکان میں ترکہ تھا۔
بروے تعجب اور افسوس کا تو یہ مقام ہے کہ ناحق دین و دنیا برباد اور خراب کرنے کو کیوں مقدس لوگوں پر تہمتیں وضع کی جاتی ہیں؟ کسی روایتِ صحیحہ قابل الاعتماد میں نہیں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دفن ہونے نہ دیا اور اس قدر تیر باران کیا کہ کئی تیر کفن حضرت حسن رضی اللہ عنہ میں چسپاں ہوگئے۔ نعوذ ب اللّٰه من ہذہ التہمۃ! [2]
جہاں تک بات ہے وہ صرف مروان کا مفسدہ اور فتنہ ہے اور جب حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا اس تہمت سے بری ہیں تو پھر اس بحث کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ اس مکان میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دعویٰ وراثت تھا یا دعویٰ ملک۔ نفس الامر تو یہ ہے کہ دعویٰ وراثت آپ کو تھا ہی نہیں، کیونکہ آپ خود حدیث حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ کے ترکہ کا کوئی وارث نہیں ہے، بلکہ صدقہ ہے۔ باقی آپ کی ملک ہونے میں شبہہ نہیں۔ سوال سوم کی حدیث جس میں ’’نحو مسکن عائشہ‘‘ مروی ہے، اس میں ظاہر ہے اور اگر وہ مکان آپ کی ملک نہ تھا تو حضرت شیخین یا حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ سے اپنے دفن ہونے کی اجازت کیوں طلب کرتے؟ فقط بعونہ تعالیٰ۔ پانچوں سوالوں کے جواب شافی تمام ہوگئے۔
حررہ: محمد رشید غازیپوری عفي عنہ
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
[1] إرشاد الساري (۱۹/ ۱۸۹)
[2] اس کی تفصیل ’’سیرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا‘‘ (ص: ۱۴۱۔ ۱۴۴) مصنفہ سید سلیمان ندوی میں دیکھنی چاہیے۔ (عبد السمیع غفر لہ)
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۹۰۵)
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۶۸۰) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۹۰۵)
[3] إرشاد الساري للقسطلاني (۵/ ۱۹۸)
[4] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۶۸۱)
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۹۳۷)
[1] اصل سوال میں ایسے ہی مرقوم ہے۔
[2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۹۰۷)