سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) حدیثِ نبوی: (( من رأی منکم منکراً۔۔۔ الخ )) کا مطلب:

  • 26197
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1628

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس حدیث: (( من رأی منکم منکراً۔۔۔ الخ )) کا بہتر مطلب جو الفاظِ حدیث سے ملتا جلتا ہو، کیا ہے؟ اس لیے کہ شراحِ حدیث نے اس حدیث کا مطلب کئی طور سے بیان کیا ہے۔    (سائل عبدالرحیم از لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث: (( من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان )) [1] [جو تم میں سے برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ کے ساتھ بدل دے، پس اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان کے ساتھ، پھر اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنے دل کے ساتھ اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے] کا مطلب میری سمجھ میں اس سے بہتر اور کوئی نہیں آتا کہ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے دو باتیں بیان فرمائی ہیں:

1۔   مسلمانوں کی باعتبارِ قوت و ضعف کے کتنی قسمیں ہیں۔

2۔  یہ کہ ان قسموں میں سے ہر ایک کا فرض کیا ہے؟

پس فرمایا کہ مسلمانوں کی باعتبارِ قوت و ضعف کے تین قسمیں ہیں، ایک اَقوی جیسے بااختیار حکام جو اپنے پورے اختیار سے منکر کو مٹا سکتے ہیں، ان کا فرض یہ ہے کہ وہ منکر کو اپنے ہاتھ سے مٹا چھوڑیں۔ دوم اوسط جیسے وہ علما جو منکر کو اپنے ہاتھ سے تو نہیں مٹا سکتے، مگر صرف زبان سے منع کر سکتے ہیں، پس ان کا فرض یہ ہے کہ صرف زبان سے مناسب طریقے سے منع کر دیں۔

﴿ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمةِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَةِ﴾ النحل: ۱۲۵]

اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلا]

سوم اضعف جیسے وہ لوگ جو ہاتھ سے مٹانا تو درکنار زبان سے بھی منع نہیں کر سکتے، ان کا فرض یہ ہے کہ صرف دل سے اس منکر کو برا جانیں و بس۔﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا﴾ البقرۃ: ۲۸۶]

اس بیان سے ظاہر ہوا کہ اس حدیث میں قوت اور ضعف سے ایمانی قوت اور ضعف مراد نہیں ہے، بلکہ تغییرِ منکر کے متعلق قوت اور ضعف مراد ہے، حتی کہ اگر کوئی شخص جو ایک درجے کا ایمان رکھتا ہو، جب تک وہ قسم سوم کے افراد سے ہے، اس کا فرض وہی ہے جو قسم سوم کا ہے اور جب وہ قسم سوم سے قسم دوم کی طرف ترقی کر جائے تو اس کا فرض قسم دوم کا فرض ہوجائے گا اور جب قسم دوم سے قسم اول کی طرف ترقی کر جائے گا تو اس کا فرض قسم اول کا فرض ہوجائے گا، اگرچہ ایمانی حالت اس کی بدستور ہو۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:74

محدث فتویٰ


[1]                صحیح مسلم، رقم الحدیث (۴۹)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ