سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) کیا کوئی نبی جولاہا تھا؟

  • 26186
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 1291

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ھل أحد من الأنبیاء کان حائکا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

[اس سائل کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے صحیح اور غیر صحیح تمام احادیث کو جاننے کا دعویٰ کیا ہے،  کیونکہ  اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کسی نبی کے متعلق یہ ثابت نہیں کہ وہ جولاہا تھا۔ پھر بالخصوص آدم علیہ السلام  کے متعلق اس کا دعویٰ ہے کہ ان کا جولاہا ہونا ثابت نہیں، پھر اس نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ آدم علیہ السلام  کاشت کار تھے۔ یہ درحقیقت اس سائل کی ڈھٹائی اور   الله اور اس کے رسول پر افترا پردازی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَھُوَ یُدْعٰٓی اِِلَی الْاِِسْلاَمِ﴾ الصف: ۷]

[اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو الله پر جھوٹ باندھے، جب کہ اسے اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہو]

نیز فرمایا:

﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤلًا﴾الإسراء: ۳۶]

[اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک، اس کے متعلق سوال ہوگا]

 کیونکہ  آدم علیہ السلام  کا ان محدثین کے قاعدے کے مطابق جولاہا ہونا کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے کہ جب وہ ثبوت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد صحت ہوتی ہے، بلکہ یہ ایک سخت ضعیف حدیث ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فتح الباری میں فرماتے ہیں:

’’مستدرک حاکم میں ایک سخت ضعیف سند کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ داود ( علیہ السلام ) زرہ ساز تھے، آدم ( علیہ السلام ) کسان تھے، نوح ( علیہ السلام ) بڑھئی تھے، ادریس ( علیہ السلام ) درزی تھے اور موسیٰ ( علیہ السلام ) چرواہے تھے۔‘‘

دیکھو! کس طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے واشگاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ حدیث کی سند سخت ضعیف ہے! پھر دیکھو یہ جاہل شخص کتنی ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ وہ ثابت ہے؟

لیکن اگر اس کے نزدیک ثبوت سے مراد صحت اور حسن سے قطع نظر صرف حدیث کا وارد ہونا ہے تو دیلمی نے مسند فردوس میں انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے جس نے بُنائی کا پیشہ اختیار کیا، وہ آدم علیہ السلام  تھے۔  چنانچہ  اس معترض کے دعوے کے مطابق دیلمی کی روایت کردہ اس حدیث کا قبول کرنا بھی لازم ہے، اگرچہ وہ ضعیف ہے اور اسے چاہیے کہ وہ اس حدیث کا انکار نہ کرے، لوگوں کو حقیر جاننے اور ان کی عزتوں میں طعن و تشنیع میں جلد بازی نہ کرے،  کیونکہ  یہ اہلِ جاہلیت اور تکبر پسند لوگوں کا شیوہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلاَ نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ وَلاَ تَلْمِزُوْٓا اَنفُسَکُمْ وَلاَ تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ الحجرات: ۱۱]

[اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کوئی قوم کسی قوم سے مذاق نہ کرے، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ کوئی عورتیں دوسری عورتوں سے، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ اپنے لوگوں پر عیب لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں کے ساتھ پکارو، ایمان کے بعد فاسق ہونا برا نام ہے اور جس نے توبہ نہ کی، سو وہی اصل ظالم ہیں]

نیز فرمایا:

﴿ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ﴾[الحجرات: ۱۳]

[اے لوگو! بے شک ہم نے تمھیں ایک نر اور ایک مادے سے پیدا کیا اور ہم نے تمھیں قومیں اور قبیلے بنا دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک تم میں سب سے عزت والا   الله کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ تقوے والا ہے]

صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ یقیناً رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، جو اس پر ظلم کرتا ہے، اسے رسوا کرتا ہے اور نہ اسے کمتر سمجھتا ہے۔ تقویٰ یہاں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے سینے کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ کسی آدمی کے بدتر ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو کم تر خیال کرے۔ ایک مسلمان کی ہر چیز: خون، ناموس اور مال دوسرے مسلمان پر حرام (احترام کے لائق) ہے۔‘‘

نیز صحیح مسلم ہی میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے، وہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا، جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہے۔ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: بے شک بندہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتا اچھا ہو؟ فرمایا: تکبر حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔‘‘

حافظ منذری رحمہ اللہ  "الترغیب والترھیب"میں فرماتے ہیں کہ ارشادِ نبوی میں مذکور لفظ (( بَطَرُ الْحَقِّ )) کا معنی حق کا انکار کرنا اور اس کو رد کر دینا ہے اور (( غَمْطُ النَّاسِ )) کا معنی لوگوں کو حقیر اور کم تر خیال کرنا ہے، جیسا کہ مستدرک حاکم کی حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔

سنن ترمذی میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’بے شک   الله نے تمہارے جاہلی غرور اور آبا و اجداد پر فخر کو ختم کر دیا ہے، اب صرف مومن پرہیز گار ہے اور فاجر بدبخت۔ تمام لوگ آدم ( علیہ السلام ) کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے (پیدا کیے گئے) ہیں۔ مرد حضرات مختلف اقوام کے ساتھ فخر کرنا چھوڑ دیں، وہ تو صرف دوزخ کے کوئلے ہیں، وگرنہ وہ لوگ   الله تعالیٰ کے نزدیک اس کیڑے سے بھی زیادہ حقیر ہو جائیں گے، جو اپنی ناک سے گندگی اٹھاتا ہے۔‘‘

نیز سنن ترمذی ہی میں سیدنا عبد  الله بن عمر رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’بے شک الله تعالیٰ نے تمھارے جاہلی غرور اور آبا و اجداد پر فخر کا خاتمہ کر دیا ہے۔ لوگوں کی اب دو ہی قسمیں ہیں: نیک پرہیزگار   الله کے نزدیک معزز اور فاجر بدبخت الله کے نزدیک حقیر ترین شخص۔ تمام لوگ آدم ( علیہ السلام ) کی اولاد ہیں اور آدم ( علیہ السلام ) کو الله تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔‘‘

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ﴾ الحجرات: ۱۳]

[اے لوگو! بے شک ہم نے تمھیں ایک نر اور ایک مادے سے پیدا کیا اور ہم نے تمھیں قومیں اور قبیلے بنا دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک تم میں سب سے عزت والا   الله کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ تقوے والا ہے، بے شک   الله سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے]

معجم کبیر طبرانی میں حبیب بن خراش رضی اللہ عنہ  کی حدیث مروی ہے کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں، کسی ایک کو دوسرے پر کوئی برتری حاصل نہیں سوائے تقوے کے۔‘‘

حافظ مناوی نے کہا ہے کہ اس کی سند حسن ہے۔

امام بیہقی رحمہ اللہ  نے حسن بصری رحمہ اللہ  سے مرسل حدیث روایت کی ہے کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’یقینا لوگوں کا مذاق اڑانے والوں میں سے ایک شخص کے لیے آخرت میں جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا، پھر اسے کہا جائے گا: ادھر آؤ! ادھر آؤ! جب وہ اپنے دکھ اور تکلیف کے ساتھ آئے گا تو اس کے سامنے اسے بلند کر دیا جائے گا۔ پھر اس کے لیے ایک دروازہ کھولا جائے گا تو اسے کہا جائے گا: ادھر آؤ! ادھر آؤ! تو وہ ناامیدی کی بنا پر اس کے پاس نہیں آئے گا۔‘‘

امام احمد اور بیہقی رحمہما اللہ  نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ  کی حدیث روایت کی ہے کہ بے شک رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’تمھارے یہ نسب کسی کے لیے باعثِ عار نہیں ہیں۔ تم آدم کی اولاد ہو، جیسے ایک صاع دوسرے صاع کے برابر ہوتا ہے۔ کسی کو دوسرے پر دین یا صالحیت کے علاوہ کسی لحاظ سے کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔‘‘

امام بیہقی رحمہ اللہ  کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:

’’کسی کو دوسرے پر دین یا نیک عمل کے علاوہ کسی لحاظ سے برتری حاصل نہیں ہے۔ آدمی (کے برا ہونے) کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ فحش گو، زبان دراز اور بخیل ہو۔‘‘

اسی کی ایک دوسری روایت میں ہے:

’’کسی کو دوسرے پر دین یا تقوے کے سوا کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ کسی شخص (کے برا ہونے) کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ زبان دراز، فحش گو اور بخیل ہو۔‘‘

مذکورہ بالا حدیث میں مذکور لفظ (( طف الصاع )) کا مطلب ہے کہ تم ایک دوسرے کے قریب ہو، جیسا کہ ترغیب و ترہیب میں ہے۔

مسند احمد میں سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ  سے حدیث مروی ہے کہ یقینا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’دیکھو! تم کسی سفید اور نہ کالے رنگ والے سے بہتر ہو، البتہ تم اس پر تقوے کی بنا پر برتری حاصل کر سکتے ہو۔‘‘ حافظ منذری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ اس کے روات ثقہ ہیں، البتہ ابوبکر بن عبد  الله بن مزنی نے ابو ذر سے نہیں سنا۔

امام بیہقی رحمہ اللہ  نے جابر بن عبد  الله رضی اللہ عنہما  سے حدیث بیان کی ہے کہ انھوں نے کہا: رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں ایامِ تشریق کے درمیان والے دن میں خطبہ ارشاد فرمایا تو کہا:

’’لوگو! یقینا تمھارا رب ایک ہے اور یقینا تمھارا باپ بھی ایک ہے۔ سن لو! کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی سفید کو کالے پر اور نہ کالے کو سفید پر کوئی برتری حاصل ہے، سوائے تقوے کے۔ بے شک تم میں سے   الله کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے، جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ سن لو! کیا میں نے (رب کا پیغام) پہنچا دیا ہے؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں! اے   الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! فرمایا: پس یہاں موجود شخص غیر حاضر کو بھی یہ پیغام پہنچا دے۔‘‘

پھر خون اور مال کی حرمت کے سلسلے میں (بیہقی نے) مکمل حدیث روایت کی ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند میں راوی مجہول ہے۔

معجم طبرانی اوسط و صغیر میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے یہ حدیث مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’جب قیامت کا دن ہوگا،   الله ایک اعلان کرنے والے کو حکم دے گا تو وہ اعلان کرے گا: سن لو! بے شک میں نے ایک نسب مقرر کیا تھا اور ایک نسب تم نے بنایا تھا،  چنانچہ  میں نے تم میں سے سب سے زیادہ اس شخص کو معزز بنایا تھا، جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے، لیکن تم نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا اور صرف یہی کہا کہ فلاں شخص فلاں شخص سے بہتر ہے۔  چنانچہ  آج کے دن میں اپنا (مقرر کیا ہوا) نسب بلند کروں گا اور تمہارے (طَے کردہ) نسب کو پست کروں گا۔ اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ  نے مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح سے بیان کیا اور کہا ہے کہ اس کا موقوف ہونا ہی محفوظ اور درست ہے۔‘‘

دیکھو! ان احادیث میں مسلمان کو کم تر سمجھنے پر کتنی زجر و توبیح مذکور ہے اور یہ کہ کسی ایک کو، خواہ وہ کوئی ہو، دوسرے پر تقوے کے سوا کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ کوئی نبی اس پیشے سے وابستہ نہیں تھا تو ان کے علاوہ جو شخص ایسے پیشے سے منسلک ہے، کیا وہ اس کی قدر و منزلت کو کم کرنے والا ہے؟ یہ تو صریحاً بہتان طرازی ہے۔ یقینا کئی صحابہ کرام اور تابعین عظام وغیرہم چمڑا رنگنے، بنائی، بوجھ برداری، لکڑیاں بیچنے اور اٹھانے، جوتا سازی اور گوشت فروشی کے پیشے سے منسلک تھے۔

صحیح مسلم میں جابر بن عبد  الله رضی اللہ عنہما  کی حدیث مروی ہے۔ ’’رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی زینب بنت جحش کو دیکھا کہ وہ کھال کو دباغت دے رہی ہیں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے اپنی حاجت پوری کی۔‘‘

امام نووی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں مذکور لفظ (( تَمْعَسُ )) کا معنی ہے کہ وہ چمڑا رنگ کر اس کی صفائی کر رہی تھیں اور ’’المنیئۃ‘‘ کا معنی وہ چمڑا جسے رنگنا شروع کیا جائے۔

صحیح بخاری و مسلم، سنن ابی داود و ترمذی اور نسائی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا  (کی لونڈی) کو صدقے میں ایک بکری دی گئی تو وہ مر گئی، پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  اس بکری کے پاس سے گزرے تو فرمایا: تم نے اس کی کھال لے کر اسے رنگ کیوں نہیں لیا؟ تو انھوں نے کہا کہ وہ مردار ہے؟ فرمایا: اس کا صرف کھانا حرام ہے۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا  کی ایک بکری مر گئی تو رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’تم نے اس کی کھال سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا اور اس کو رنگ کیوں نہیں لیا؟  کیونکہ  وہ اس کو پاکیزہ بنا دیتا ہے۔‘‘

صحیح بخاری، مسند احمد اور سنن نسائی میں سیدنا عبد  الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا  نے کہا:

’’ہماری ایک بکری مر گئی تو ہم نے اس کا چمڑا رنگ لیا، پھر ہم اس میں ہمیشہ نبیذ بناتے رہے، حتی کہ وہ ایک بوسیدہ مشکیزہ بن گیا۔‘‘

صحیح بخاری ہی میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ ایک عورت ایک بُنی ہوئی حاشیہ دار چادر لے کر آئی اور اس نے کہا: اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ چادر میں نے اپنے ہاتھوں سے بنی ہے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو پہناؤں۔

صحیح بخاری میں ابو حازم کی حدیث مروی ہے کہ چند اشخاص سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ  کے پاس منبر سے متعلق پوچھنے کے لیے آئے تو انھوں نے کہا: رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فلاں عورت (سہل رضی اللہ عنہ  نے اس کا نام لیا تھا) کی طرف پیغام بھیجا کہ اپنے بڑھئی غلام کو حکم دو کہ وہ میرے لیے لکڑی (کا منبر) بنائے، جس پر لوگوں سے بات چیت کرتے وقت میں بیٹھ جایا کروں، چنانچہ اس عورت نے اپنے غلام کو حکم دیا تو وہ جنگل کی ایک لکڑی جھاؤ سے منبر بنا کر لے آیا۔ پھر اس عورت نے وہ منبر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں بھیج دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے رکھنے کا حکم دیا، پھر اس کے اوپر بیٹھے۔ صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے حدیث مروی ہے کہ وہ شخص جو اپنی پیٹھ پر لکڑی کا گھٹا اٹھا کر لائے، اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے بھیک مانگے تو کوئی دے یا نہ دے۔

سنن ابی داود میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے:’’ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس مانگنے کے لیے آیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کیا تمھارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟ اس نے کہا: کیوں نہیں! ایک معمولی چادر ہے، جس کا ایک حصہ ہم اوڑھتے اور دوسرا حصہ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے، جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔ فرمایا: وہ دونوں چیزیں میرے پاس لے کر آؤ۔ وہ انھیں لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انھیں ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا: کون یہ خریدے گا؟ ایک شخص نے کہا: میں یہ دونوں چیزیں دو درہم میں خریدتا ہوں،  چنانچہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے وہ دو درہم لے کر انصاری کو دیے اور فرمایا: ایک درہم کا کھانا خرید کر گھر والوں کو دے دو اور دوسرے کا ایک کلہاڑا خرید لو اور میرے پاس لے کر آؤ۔ وہ لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ ٹھونک دیا، پھر فرمایا: جاؤ، لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور میں تمھیں پندرہ دن نہ دیکھوں۔‘‘

صحیح بخاری میں ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ  سے حدیث مروی ہے کہ انصار قبیلے کا ایک شخص تھا، جسے ابو شعیب کہا جاتا تھا، اس کا ایک غلام قصاب تھا تو اس (ابو شعیب) نے کہا: میرے لیے کھانا تیار کرو، میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کو پانچ افراد کے ساتھ بلانا چاہتا ہوں، پھر اس نے رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کو بلایا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے امام، رئیس اور بڑے شخص کا اپنے سے کم تر کی دعوت قبول کرنا اور معمولی پیشے سے، جیسے قصاب ہے، وابستہ افراد کا کھانا کھانا مستفاد ہوتا ہے اور یہ کہ اس طرح کا پیشہ اپنانا اس کے مکروہات سے اجتناب کرنے والے کی قدر و منزلت کم کرتا ہے نہ اس کو اپنانے سے اس کی شہادت رد ہوتی ہے۔ صحیح بخاری کے روات میں سے بعض محدثین موچی تھے، جن کا نام یونس بن ابی الفرات الاسکاف ہے، وہ جوتا سازی کا کام کرتے تھے۔ نیز ہاتھ سے کمانے کی ترغیب بھی مروی ہے اور یہ کہ وہ تمام کاموں میں سے افضل ہے۔ صحیح بخاری میں مقدام بن معد یکرب کی حدیث مروی ہے کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’کسی شخص نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے زیادہ بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا اور بے شک   الله کے نبی داود علیہ السلام  اپنے ہاتھ کی کمائی کھایا کرتے تھے۔‘‘

حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ خیریت سے مراد ہے کہ کوئی شخص اپنے ہاتھ کی کمائی کی بنا پر لوگوں سے مستغنی ہوجائے۔ سنن ابن ماجہ میں مروی ہے کہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے زیادہ پاکیزہ کمائی کسی شخص نے نہیں کی ہے۔ فوائد ہشام بن عمار میں اس حدیث کے بعد یہ زائد الفاظ مروی ہیں کہ جو شخص اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتا ہوا وفات پا گیا، اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔

سنن نسائی میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  کی حدیث مروی ہے کہ آدمی کا سب سے پاکیزہ کھانا، اس کی کمائی سے ہوتا ہے۔ اسی موضوع پر مستدرک حاکم میں ایک حدیث سعید بن عمیر رحمہ اللہ  اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں اور مسند احمد میں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ  اور سنن ابی داود میں عبد  الله بن عمرو رضی اللہ عنہ  سے حدیث مروی ہے۔ حدیث میں ہاتھ کے ساتھ کام کرنے کی فضیلت اور دوسرے سے کام کروانے کے بجائے اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی فوقیت کا ذکر ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  کی حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  اپنے کام از خود کیا کرتے تھے۔

امام ابن منذر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ ہاتھ کی کمائی دوسرے کاموں پر اس وقت فوقیت رکھتی ہے، جس وقت کام کرنے والا خیر خواہی کا مظاہرہ کرے، جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی حدیث میں اس کی صراحت آتی ہے۔ داود علیہ السلام  کو خصوصیت سے ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی پرجو اکتفا کرتے تھے وہ اس و جہ سے نہیں تھا کہ وہ ضرورت مند تھے،  کیونکہ  وہ تو زمین میں بادشاہ تھے، جیسا کہ   الله تعالیٰ نے فرمایا ہے، بلکہ صرف افضل ہونے کی بنا پر انھوں نے اس کمائی کو اختیار کیا تھا، اسی وجہ سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بات فرمانے کے بعد کہ ہاتھ کی کمائی سب سے بہتر ہے، داود علیہ السلام  کا تذکرہ اس کی دلیل کے طور پر فرمایا ہے۔

صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی حدیث مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’تم میں سے کوئی شخص اپنی کمر پر لکڑی کا گٹھا اٹھا کر لائے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے کہ کسی سے بھیک مانگے، وہ اس کو دے یا نہ دے۔‘‘

رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا گیا: کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے؟ فرمایا: ’’آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور شریعت کے مطابق ہر حلال تجارت۔‘‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے "بلوغ المرام" میں کہا ہے کہ اس حدیث کو بزار رحمہ اللہ  نے روایت کیا ہے اور حاکم رحمہ اللہ  نے اسے صحیح کہا ہے۔

علامہ شرقاوی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ "أي الکسب أفضل"کا مطلب ہے کہ کون سا پیشہ سب سے بہتر ہے، کیوں کہ سوال پیشوں کے بارے میں ہوا تھا، جیسا کہ جواب سے معلوم ہوتا ہے اور آدمی کا وصف عام ہے، جس کا کوئی مفہوم (مخالف) نہیں ہے۔ ہاتھ کی قید بھی کثرت کی بنا پر لگائی گئی ہے، اسی پر انھوں نے اپنے عمل کی بنیاد رکھی ہے اور اس حدیث میں صنعت و حرفت کی طرف اشارہ ہے۔ امام صنعانی (سبل السلام) شرح بلوغ المرام میں فرماتے ہیں کہ اس میں دلیل ہے کہ تمام پیشے پاکیزہ ہیں، جیسا کہ لوگوں کی طبیعتیں انھیں پسند کرتی ہیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے صرف یہ سوال کیا گیا تھا کہ کون سا پیشہ سب سے زیادہ پاکیزہ ہے؟ یعنی سب سے زیادہ افضل اور برکت والا ہے۔ حلال تجارت کو ہاتھ کے عمل پر مقدم کرنا اس کے افضل ہونے کی دلیل ہے اور صحیح بخاری کی حدیث بھی اسی پر دلالت کرتی اور بتاتی ہے کہ صنعت و تجارت ہی سب سے زیادہ پاکیزہ ہیں۔

نیز اس حدیث سے اجرت پر کام کرنے کے جواز کی دلیل معلوم ہوتی ہے،  کیونکہ  ہاتھ کے ساتھ کام کرنا، دوسرے اور اپنے دونوں کے لیے ہوتا ہے، اسی طرح یہ بھی ظاہر ہے کہ کمائی کرنا ہاتھ اور کسی دوسرے آلے دونوں سے ہٹ کر بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ بُنائی کرنا بھی ہاتھ سے کمائی کرنے ہی کا ایک فرد ہے، پس یہ تمام پیشوں میں سے افضل ہے، لہٰذا یہ طعن و تشنیع کرنے والا کہ اس پیشے کو اپنانے والا آدمی معزز نہیں اور یہ کہ اس کی عقل پچھواڑے میں ہے اور وہ حقیر شخص ہے، در حقیقت امت کے سلف و خلف میں طعن کرنے والا ہے،  چنانچہ  اس پر توبہ و استغفار کرنا واجب ہے، وگرنہ وہ ہلاکت کے گھر (جہنم) سے قبل ہی دنیا میں   الله تعالیٰ کی طرف سے قبیح ترین عذاب کا حق دار ہوگا،  کیونکہ  اس نے ایک مسلمان کو، جو اپنے ہاتھ سے کام کر کے لوگوں سے بھیک مانگنے سے بچنے کا بندوبست کر رہا ہے، حقیر جان کر بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔   الله تعالیٰ ہمیں اور اسے اپنے مرضیات کی توفیق سے نوازے۔

علاوہ ازیں اس حدیث ’’عرب کا ایک قبیلہ، دوسرے قبیلے کے، ایک خاندان دوسرے خاندان کے اور ایک شخص دوسرے شخص کا ہم پلہ (برابر) ہے، سوائے جولاہے اور حجام (سینگی لگانے والے) کے۔‘‘ کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  تلخیص میں فرماتے ہیں کہ اسے حاکم نے ابن جریج عن ابن أبي عن ابن عمر کی سند سے روایت کیا ہے اور ابن جریج سے روایت کرنے والے شخص کا نام مذکور نہیں۔

امام ابن ابی حاتم نے اپنے والد سے اس حدیث کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: یہ جھوٹ ہے، اس کی کوئی اصل نہیں اور ایک دوسری جگہ کہا کہ یہ باطل ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے ’’تمہید‘‘ میں اسے بقیۃ عن زرعۃ، عن عمران بن أبي الفضل عن نافع عن ابن عمر کی سند سے روایت کیا ہے۔ دارقطنی نے علل میں کہا ہے کہ یہ (حدیث) صحیح نہیں ہے۔ ابن حبان رحمہ اللہ  نے کہا ہے کہ عمران بن ابی الفضل ثقہ راویوں سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔ ابن ابی حاتم رحمہ اللہ  نے کہا ہے کہ میں نے اپنے والد سے اس (حدیث) کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا کہ یہ منکر ہے۔

اس حدیث کو ہشام نے عبید  الله رازی سے روایت کیا تو اس میں ’’حجام‘‘ کے بعد "أو دباغ"(یا چمڑا رنگنے والا) کے الفاظ کا اضافہ کر دیا، جس کے نتیجے میں چمڑا رنگنے والے اس کے خلاف اکٹھے ہوگئے اور انھوں نے اسے قتل کرنے کا تہیا کر لیا۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ  نے کہا ہے کہ یہ روایت منکر اور موضوع ہے۔ ابن جوزی رحمہ اللہ  نے اس کو عللِ متناہیہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما  تک دو سندوں کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ایک میں علی بن عروہ راوی ہے، جسے ابن حبان رحمہ اللہ  نے وضع (حدیث بنانا) کے سا متہم قرار دیا ہے اور دوسری سند میں محمد بن فضل بن عطیہ ہے جو متروک ہے۔ پہلی روایت (الکامل) ابن عدی میں ہے اور دوسری دارقطنی میں ہے۔ اس کی ابن عمر رضی اللہ عنہما  کے علاوہ ایک اور سند بھی ہے، جسے بزار رحمہ اللہ  نے اپنی مسند میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ  کی حدیث سے ان الفاظ میں روایت کیا ہے کہ عرب ایک دوسرے کے برابر ہیں اور موالی (غلام) آپس میں ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ اس کی سند میں سلیمان بن ابی جون راوی ہے۔ ابن القطان نے کہا ہے: وہ نامعلوم ہے۔

مزید برآں یہ حدیث خالد بن معدان نے معاذ رضی اللہ عنہ  سے روایت کی ہے،  حالانکہ  اس نے معاذ رضی اللہ عنہ  سے سماع ہی نہیں کیا اور اس کے مخالف وہ حدیث ہے جو سنن ابی داود میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مرفوعاً مروی ہے کہ اے بنی بیاضہ! ابو طیبہ سے نکاح کرو اور کرواؤ۔  حالانکہ  وہ حجام (سینگی لگانے والا) تھا۔ اس کی سند حسن ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کا کلام ختم ہوا۔

ایک صحیح حدیث میں مروی ہے کہ حجام کی کمائی خبیث ہے، لیکن کمائی کی خباثت سے پیشے کا ناپاک اور حقیر ٹھہرنا ضروری نہیں، جیسا کہ ہم نے گذشتہ صفحات میں فتح الباری سے نقل کیا ہے۔ اسی لیے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے ساتھ نکاح کرنے اور کروانے کا حکم دیا تھا۔ پس جولاہے کی کمائی میں کون سی ناپاکی ہے کہ اسے حقیر اور کم تر کہا جائے؟  حالانکہ  وہ حجام سے برتر ہے، جب کہ حجام تو عقلی اور شرعی لحاظ سے گندے خون کو نکالنے کا کام کرتا ہے۔


 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:52

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ