السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مردے سنتے ہیں یا نہیں؟ اگر سنتے ہیں تو (( نم کنومۃ العروس )) والی حدیث کا کیا مطلب ہے؟ مرسلہ: مولوی ابو اسحاق عبد الله صاحب صدر مدرس مدرسہ شمسیہ، ویرووال مسجد اہل حدیث متصل تھانہ۔ ضلع امرتسر
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آیت: ﴿اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی﴾ اور آیت ﴿وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ﴾سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مردے سنتے نہیں ہیں اور اسی کی تائید حدیث (( نم کنومۃ العروس ))[1] [دلہن کی طرح سو جا] سے بھی ہوتی ہے، لیکن بعض احادیث صحیحہ سے خاص اوقات و مواقع میں مردوں کا سننا ثابت ہوتا ہے، جیسے حدیثِ انس رضی اللہ عنہ سے، جس میں یہ لفظ واقع ہے:
(( إنہ لیسمع قرع نعالھم ))[2] (رواہ البخاري)
[وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے]
اور جیسے حدیثِ ابن عمررضی اللہ عنہما سے، جس میں یہ لفظ واقع ہے:
(( ما أنتم بأسمع منھم ))[3] (رواہ البخاري أیضاً)
[تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے]
اور جیسے حدیثِ بریدہ رضی اللہ عنہ سے، جس میں یہ لفظ واقع ہے:
"کان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یعلمھم إذا خرجوا إلی المقابر: السلام علیکم أھل الدیار۔۔۔ الخ"[4] (رواہ مسلم)
[جب وہ قبرستان جانے کا ارادہ کرتے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ان کو یہ دعا سکھایا کرتے تھے: ’’اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔۔۔ الخ‘‘]
پس دونوں آیات مذکورہ بالا اور ان احادیث کے درمیان جمع و توفیق کی صورت یہ ہے کہ مرُدے سنتے نہیں، لیکن جب الله تعالیٰ کسی خاص وقت یا کسی خاص موقع میں ان کو سنانا چاہتا ہے تو وہ سن لیتے ہیں۔
تفسیر فتح البیان مصنفہ نواب صدیق حسن خان صاحب (۷/ ۸۵) میں ہے:
"وظاھر نفي سماع الموتیٰ العموم، فلا یخص منہ إلا ما ورد بدلیل، کما ثبت في الصحیح أنہ صلی اللہ علیہ وسلم خاطب القتلیٰ في قلیب بدر، فقیل لہ: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم إنما تکلم أجسادا لا أرواح لھا؟ وکذلک ما ورد من أن المیت یسمع خفق نعال المشیعین لہ إذا انصرفوا" انتھی
[مردوں کے سننے کی نفی کا ظاہری مفہوم اس کا عموم ہے، اس سے صرف وہی خاص ہوسکتا ہے، جو دلیل کے ساتھ وارد ہوا ہو، جیسا کہ صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے ایک کنویں میں پڑے ہوئے مقتولین سے خطاب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ایسے جسموں سے کلام کر رہے ہیں، جن میں روحیں نہیں ہیں؟ اسی سلسلے میں جو یہ وارد ہوا ہے کہ مردہ اس وقت رخصت کرنے والوں کے جوتوں کی آہٹ کو سنتا ہے، جب وہ اسے رخصت کر کے واپس لوٹتے ہیں]
فتح الباری شرح صحیح بخاری (۵/ ۷۰۴) میں ہے:
"قال ابن التین: لا معارضۃ بین حدیث ابن عمر والآیۃ، لأن الموتیٰ لا یسمعون بلا شک، لکن إذا أراد الله إسماع ما لیس من شأنہ السماع، لم یمتنع، کقولہ تعالیٰ: ﴿اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ﴾ الآیۃ، وقولہ: ﴿فَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا﴾ الآیۃ۔ انتھی"
[ابن التین رحمہ اللہ نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث اور آیت میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ بلاشبہ مردے نہیں سنتے ہیں، لیکن جب الله تعالیٰ اس کو سنانے کا ارادہ کرے، جو سنا نہیں کرتا تو اس میں کوئی مانع اور رکاوٹ بھی نہیں ہے۔ جیسے الله تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ﴾ [الأحزاب: ۷۲] (بے شک ہم نے امانت کو (آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے) پیش کیا) اور الله تعالیٰ کا یہ ارشادہے: ﴿فَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا﴾[حم السجدۃ: ۱۱] (تو اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ آؤ خوشی یا ناخوشی سے) ]
اس مسئلے کے متعلق میرا ایک مضمون فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۴۱۱ و ۴۱۲ و ۴۱۳) میں بھی درج ہے، اس کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۰۷۱) السلسلۃ الصحیحۃ، رقم الحدیث (۱۳۹۱)
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۲۷۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۸۷۰)
[3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۳۰۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۸۷۳)
[4] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۷۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب