السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مجلسِ میلاد کرنا جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مجلسِ میلاد کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ خود اس مجلس کو کبھی کیا اور نہ امت کو اس کے کرنے کی کبھی ہدایت فرمائی اور نہ یہی ہوا کہ آپ کے عہدِ مبارک میں صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کیا اور آپ نے اس کو بحال رکھا، پھر اس مجلس کے جواز کی کیا صورت ہے؟ ہاں اگر آپ کے بعد کوئی اور نبی آیا ہوتا اور اس نے اس
مجلسِ میلاد کو جائز بتایا ہوتا تو البتہ اس کے جواز کی گنجایش تھی، لیکن نبوت کو تو الله تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب تک کوئی نبی آیا اور نہ آیندہ کبھی آ سکتا ہے تو پھر اس مجلس کا کرنا کیونکر جائز ہوسکتا ہے؟
ہدایہ میں ہے کہ طلوعِ فجر کے بعد سنتِ فجر سے زیادہ کوئی اور نفلی نماز پڑھنا مکروہ ہے اور اس کی وجہ یہی بتائی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود نماز پر حریص ہونے کے اس سے زیادہ اور کوئی نفلی نماز نہیں پڑھی:
"ویکرہ أن یتنفل بعد طلوع الفجر بأکثر من رکعتي الفجر، لأنہ علیہ السلام لم یزد علیھما مع حرصہ علی الصلاۃ"(ہدایة: ۱/ ۸۲)
نیز ہدایہ میں ہے کہ عید گاہ میں جا کر قبل نمازِ عید کے کوئی نفلی نماز نہ پڑھے اور اس کی وجہ بھی یہی بتائی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود نماز پر حریص ہونے کے عیدگاہ میں قبل نمازِ عید کے کوئی نفل نماز نہیں پڑھی:
"ولا یتنفل في المصلیٰ قبل صلاۃ العید، لأن النبي صلی اللہ علیہ وسلم لم یفعل ذلک مع حرصہ علی الصلاة"(ہدایة: ۱/ ۱۵۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب