السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عامل اس کلام کا "أجیبوا أو توکلوا أیھا الوسواس الخناس لقلب کذا وکذا، بالمحبة والمودة، وعطفوا قلبہ علي"[اے وسواسِ خناس! فلاں فلاں کی محبت و مودت کی فرمایش پوری کرو یا اس کے ضامن بن جاؤ اور اس کا دل میری طرف مائل کر دو] بایں طور کے واسطے محبت یا کسی اور امر کے عمل میں رکھے اور قبل اس کلام کے تین سو بار سورہ ﴿قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ پڑھے اور ہر سیکڑے کے بعد اس کلام کا اعادہ کرے۔ ﷲ فرمائیے کہ عامل اس کا مومن رہا یا داخل گروہِ مشرکین ہوا؟ بینوا تؤجروا!
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو کلام کہ سوال میں مذکور ہے، یعنی "أجیبوا وتوکلوا أیھا الوسواس الخناس۔۔۔"ناجائز کلام ہے اور ایسے کلام کا عامل سخت گنہگار ہے۔ اس لیے کہ اس کلام میں ارواحِ خبیثہ سے دعا اور ندا و استمداد اور حاجت روائی چاہی گئی ہے اور یہ بات اصولِ اسلام کے خلاف ہے۔ اسلامی مسئلہ یہ ہے کہ سوائے الله تبارک و تعالیٰ کے اور کسی سے اس طور سے استمداد جائز نہیں ہے۔ ترمذی شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا:
(( وإذا استعنت فاستعن باللّٰه ))[1] ’’یعنی اور جب تو مدد چاہے تو الله سے مدد چاہ۔‘‘ الله تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں اپنے بندوں کو اس طرح کہنا تعلیم فرمایا:
﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ الفاتحة: ﴿٥﴾
’’یعنی ہم تجھی کو پوجتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۵۱۶)