السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صادق آباد سے بابو حیدر لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں مسجد میں امام مسجد حنفی مقلد ہے، کیا میں اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہوں یا میرے لیے گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے ہاں مقلدین حضرات کی چنداقسام ہیں،بعض ایسے مقلدین ہیں جو شرک وبدعت کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس شرک وبدعت کو مشرف باسلام کرنے کے لئے پوری توانائیاں صرف کئے ہوئے ہیں۔اس قسم کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔بعض ایسے ہیں جو کھلے بندوں بدعات کا ارتکاب تو نہیں کرتے البتہ امامت کے وقت نماز کا جھٹکا کرنے کے عادی ہیں۔رکوع وسجود اور قومہ اور جلسہ میں کوئی اعتدال نہیں ہوتا، حالانکہ ٹھہر ٹھہر کر نماز ادا کرنا نماز کا حصہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز سے نماز پڑھنے والے کو اپنی نماز دوبارہ ادا کرنے کا حکم دیاتھا۔اس قسم کے امام کے پیچھے نماز تو ہوجاتی ہے لیکن اسے مستقل امام بنانا صحیح نہیں ہے۔اگر اما م مذکورہ بالاصفات یعنی شرک وبدعات کا مرتکب اور جلدی جلدی نماز پڑھانے کا عادی ہو تو اس کا حل یہ ہے کہ ایسی مسجد بنانے کا اہتمام کیا جائے جہاں قبول صفات امام کا تعین ممکن ہو یا آس پاس کسی ایسی مسجد میں نماز پڑھنے کی کوشش کی جائے جہاں قبول صفت امام متعین ہو یا گھر میں باجماعت نماز پڑھنے کا اہتمام کیاجائے، گھر میں اکیلے نماز ادا کرنے سے جماعت کے ثواب سے محروم رہنا ہوگا جسے ایک پختہ مسلمان گوارا نہیں کرسکتا، ہم لوگ اپنی دنیا سنوارنے میں بڑے ہوشیار ثابت ہوتےہیں۔لیکن دینی معاملات میں رخصتوں کو تلاش کرتے ہیں، اپنی ذہنی آبیاری اور بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کےلئے ایسی مسجد کا ہونا ضروری ہے جہاں کتاب وسنت کے مطابق فریضہ نماز ادا کیا جاسکے اور قرآنی تعلیم کا صحیح بندوبست بھی ہوتا کہ ہمارے بچے شروع ہی سے اسلامی تعلیمات سے روشناس ہو ں اور اسلامی فضا میں پروان چڑھیں، ہمیں اس بات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب