سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(329) عیدین کی نماز کا وقت کیا ہے؟

  • 2614
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1343

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ عیدین کی نماز کا وقت کس وقت سے کس وقت تک ہے۔ بعض علماء نیزے کی قید سے صرف ۷ یا ۸ بجے تک جائز رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زوال تک عیدین کا وقت ہے کون سا قول ٹھیک ہے؟ اگر ۷ یا ۸ بجے کے پیچھے نماز پڑھائے تو اس کے پیچھے نماز پڑھے یا اپنی الگ جماعت کرائے کہ یہ امام تو دیر سے نماز پڑھاتا ہے۔ بینوا توجروا


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 ھُوَ الْمُوَفِّقُ لِلسَّدَادِ وَالصَّوَابِ، یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِك اَسْتَغِیْثُ ۔ صورت مرقومہ بالا کا جواب ہے کہ اس ملک راجپوتانہ میں جنوری مہینہ میں آفتاب ساڑھے سات (۲/۱۔۷) بجے نکلتا ہے اور آخری ماہ میں آج کل سات بج کر بیس منٹ پر نکلتا ہے تو جس گروہ علماء نے سات بجے تک وقت رکھا ہے ان کے نزدیک تو نماز عیدین کی بالکل جاڑوں میں نہیں ہو سکتی۔ یہ ان کی عقل مندی کی نشانی ہے اور ان کے علم کا ناپ و تول ہے اور حدیث عمرو بن عبسہ میں ایک نیزہ کا اور دو نیزہ کا بھی ذکرآ چکا ہے تو ا س صورت میں بھی آٹھ بجے تک وقت ہی دشوار ہے اور گرمی کے موسم میں پانچ بجے آفتاب نکلتا ہے تو تین گھنٹہ تک عیدین کا وقت ان علماء کے نزدیک رہتا ہے۔ یہ دین محمدی نہیں بلکہ انگریزی دین ہے۔ دین محمدی تمام ملکوں میں تمام موسموں میں وقتوں میں ایک ہے۔ حدیث عمرو بن عبسہ کے یہ الفاظ ہیں۔
اِذَا صَلَّیْتَ الصُّبْحَ فَاقْصُرْ عَنِ الصَّلٰوة حَتّٰی تَطْلَعُ الشَّمْسُ فَاِذَا اطَّلَعَتْ فَلَا تُصَلِّ حَتّٰی تَرْفَعَ فَاِنَّھَا تَطْلُعُ حِِیْنَ تَطْلُعُ بَیْنَ قَرْنَیْ شَیْطٰنٍ وَحِیْنَئِذٍ یَّسْجُدُ لَھَا الْکُفَّارُ فَاِذَا ارْتَفَعَتْ قِیْدَ رُمْحٍ اَوْ رُمْحَیْنٍ فَصَلِّ فَاِنَّ الصَّلٰوۃَ مَشْہُوْدَة وَّمَحْضُوْرَة
آخر حدیث تک۔
یہ حدیث شریف صاف ہے کہ مجرد آفتاب کے نکلنے سے نماز درست نہیں جب تک ایک یا دو نیزے نہیں نکل چکے اس کے بعد اس کو نماز پڑھنی چاہیے۔ تو اس حدیث کے لحاظ سے آٹھ بجے تک جاڑوں میں وقت نہیں داخل ہوتا۔
اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سَاَلَ اَبَا وَاقِدِ اللَّیْثِیَّ مَا کَانَ یَقْرَأُ بِه رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فِی الْاَضْحٰی وَالْفِطْرِ فَقَالَ کَانَ یَقْرَأْ بِقَافُ وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ ہ وَاقْتَرَبَتِ السَّاعَة وَانْشَقَّ الْقَمَرُ رَوَاہُ مَالِك فِی الْمُوْطَّا
اس حدیث سے صاف ظاہر ہو گیا کہ آپ کی قرآت دونوں رکعتوں عیدین میں سور آیت تھیں تو اسی حساب سے جب آفتاب جاڑوں میں ساڑھے سات بجے نکلے اور دو نیزے باہر آنے کے بعد نماز شروع کرے اور سو آیت دونوں رکعتوں میں پڑھے اور مطابق سنت کے رکوع سجدہ کرے اور بارہ تکبیریں کہے۔ تو کسی صورت میں آٹھ بجے سے پہلے نماز ختم نہیں کر سکتا۔
معلوم نہیں مولوی صاحبان نے کیا سمجھ کر یہ فتویٰ دیا ہے ۔ کیا نماز کو بھی انگریزی بنانے والے ہیں اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب مقرر کیا ہے۔
بَابٌ اِذَا فَاتَة الْعِیْدُ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ وَکَذٰلِك النِّسَآء  مَنْ کَانَ فِی الْبُیُوْتِ وَالْقُریٰ بِقَوْلِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم ھٰذَا عِیْدُنَا یَآ اَھْلَ الْاِسْلَامِ وَاَمَرَ اَنَسَ بْنُ مََالِکٍ مَّوْلَاہُ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیْ رضی اللّٰہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم خَطَبَ یَوْمَ الْعِیْدَ عَلٰی رَاحِلَة رَوَاہُ اَبْوَ یَعْلٰی وَرِجَالُہٗ رِجَالُ الصَّحِیْحِ  (مجمع الزوائد)
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ اصلی مقصد خطبہ سے نصیحت کا کرنا ہے مجرد رسم ادا کرنا نہیں تو جس جگہ سے خطیب کی آواز تمام لوگوں تک پہنچے وہاں پر کھڑا ہو کر خطبہ پڑھے۔ اگر ایسی جگہ خطبہ پڑھا ہے کہ تمام کو آواز نہیں پہنچی تو جن کو آواز پہنچی تو ان کو وہاں جا کر پھر خطبہ سناوے۔ کوئی روایت ہم کو آج تک نظر نہیںآئی۔ جس سے یہ ثابت ہو کہ جس جگہ امام نے نماز پڑھی ہے اس جگہ پر خطبہ پڑھے جب کہ شریعت سے جگہ مقرر نہیں تو اپنے قیاس سے کیوں قیاس کی بنیاد ڈال کر شریعت میں نیا رستہ قائم کرے۔ شریعت پوری ہو چکی ہے اسی قدر بہت ہے زیادہ کرنے کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔
(فقط راقم عبد الحکیم نصیر آبادی، فتاویٰ ستاریہ جلد اول ص ۲۰)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 ص 156۔157
محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ