سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(141) وضو کا مکمل طریقہ

  • 26134
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1313

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شریعت میں مطلوب وضو کا کیا طریقہ ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

شرعی وضو کے دو پہلو ہیں :

1۔ وہ فرائض و واجبات جن کے بغیر وضو صحیح نہیں ہوتا اور وضو کے یہ فرائض و واجبات حسب ذیل آیت کریمہ میں مذکور ہیں:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلوةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ...﴿٦﴾... سورة المائدة

’’ مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو تو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لیا کرو۔‘‘

گویا فرائض و واجبات یہ ہیں: چہرے کا ایک بار دھونا اور کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرنا بھی اسی میں شامل ہے، پھر دونوں ہاتھوں کو انگلیوں کے کنارے سے لے کر کہنیوں تک ایک بار دھونا۔ ضروری ہے کہ وضو کرنے والا اپنے دونوں بازوؤں کو دھوتے ہوئے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو بھی بازوؤں کے ساتھ دھوئے، بعض لوگ اس بات سے غافل ہیں اور دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک ایک بار دھونا۔تو یہ ہیں وضو کے فرائض و واجبات جن کےبغیر چارہ نہیں۔

2۔ وضو کے مستحبات: وضو شروع کرتے ہوئے انسان بسم اللہ پڑھے ، دونوں ہتھیلیوں کو تین بار دھوئے ، پھر تین چلوؤں کے ساتھ تین تین بار کلی کرے اور ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرے، پھر چہرے کو تین بار دھوئے ، پھر دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک تین تین بار دھوئے، پہلے دائیں اور پھر بائیں ہاتھ کو دھوئے، پھر ایک بار سر کا مسح کرے اور وہ اس طرح کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو تر کر لے اور پھر انہیں سر کے ابتدائی حصے سے آخر تک لے جائے، پھر آخر سے ابتدائی حصے تک لے آئے ، پھر دونوں کانوں کا مسح کرے ، دونوں انگشت شہادت کو اپنے دونوں کانوں کے سوراخوں میں داخل کرے اور دونوں انگوٹھوں کے ساتھ دونوں کانوں کے باہر کی طرف مسح کرے، پھر دونوں پاؤں کو دونوں ٹخنوں تک تین تین بار دھوئے، پہلے دائیں اور پھر بائیں پاؤں کو دھوئے اور پھر اس کے بعد یہ دعا پڑھے:

"أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ" (صحيح مسلم ، الطهارة، باب الذكر المستحب عقب الوضوء، ح: 234(554)

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کےسوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اور کے بندے اوررسول ہیں۔‘‘

اور ایک روایت میں ہے پھر پڑھے:

" اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَوَّابِينَ ، واجْعَلْني مِنَ المُتَطَهِّرِينَ " جامع الترمذي ، الطهارة ، باب فى ما يقال بعد الوضوء ، ح:55)

’’ اے اللہ ! تو مجھے کثرت سے توبہ کرنے والوں میں شامل کر لے اور مجھے خوب پاک صاف رہنے والوں میں سے بنا دے۔‘‘

جب کوئی شخص اس طرح وضو کرے گا ، تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جائیں گے۔ وہ ان میں سے جس سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی نبی ﷺ کی صحیح حدیث ثابت ہے۔(صحیح مسلم : الطہارۃ، باب الذکر المستحب عقب الوضوء، حدیث : 234)

مریض طہارت کر طرح حاصل کرے ؟

یہ ایک مختصر رسالہ ہےجس میں بیان کیا گیا ہے کہ مریضوں پر طہارت اور نماز کے بارے میں کیا واجب ہے۔ مریض کے لیے مخصوص احکام ہیں کیونکہ وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے ، جس میں اسلامی شریعت نے خاص رعایتیں دی ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی حضرت محمدﷺ کو ایسے دین حنیف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے جو بے حد آسان دین ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَما جَعَلَ عَلَيكُم فِى الدّينِ مِن حَرَجٍ...﴿٧٨﴾... سورة الحج

’’ اور تم پر دین ( کی کسی بات ) میں تنگی نہیں کی‘‘

اور فرمایا:

﴿يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ...﴿١٨٥﴾... سورة البقرة

’’ اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا‘‘

اور فرمایا:

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم وَاسمَعوا وَأَطيعوا...﴿١٦ ... سورة التغابن

’’ سو جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرو اور اس کے احکام کو سنو اور ( اس کے ) فرمانبردار رہو۔‘‘

اور نبی ﷺ نے فرمایا:

"إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ"(صحيح البخاري ، الإيمان، باب الدين يسر ، ح: 39)

’’ بے شک دین آسان ہے۔‘‘

اور فرمایا:

"إِذَا أَمَرْتُكُمْ بشيءٍ فَأْتُوا منه ما اسْتَطَعْتُمْ" (صحيح البخاري، الاعتصام، باب الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ، ح: 7288، وصحيح مسلم، الحج، باب فرض الحج مرة فى العمر، ح: 1337)

’’ جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں ، تو اس کی مقدور بھر اطاعت بجا لاؤ۔‘‘

اسی اساسی قاعدے کی بنیاد پر اللہ تعالی نے عذر والے لوگوں سے ان کےعذر کے بقدر ان کی عبادت میں تخفیف کردی ہے تاکہ وہ کسی حرج و مشقت کے بغیر اللہ کی عبادت کرسکیں۔ درج ذیل میں مریض کے لیے ضروری ہدایات ذکر کی جاتی ہیں:

٭ مریض کے لیے واجب ہے کہ وہ پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرے اور حدث اصغر کی صورت میں وضو اور حدث اکیر کی صورت میں غسل کرے۔

٭ اگر وہ پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرنے سے عاجز ہو یا پانی کے استعمال کی صورت میں مرض میں اضافے کا خوف ہو یا صحت یابی کے حصول میں تاخیر کا اندیشہ ہو تو وہ تیمم کر لے۔

٭ تیمم کی کیفیت یہ ہے کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک بار زمیں پر مارے اور ان دونوں ہاتھوں کو اپنے سارے چہرے پر پھیرے اور ایک دوسری ہتھیلی کے ساتھ ان دونوں پر مسح کرے۔

٭ مریض اگر خود طہارت حاصل نہ کر سکتا ہو تو اسے وضو یا تیمم کوئی دوسرا شخص کروا دے۔ تیمم کے لیے وہ شخص اپنے دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی پر مارے اور پھر ان دونوں کو مریض کے چہرے اور دونوں ہاتھوں پر پھیر دے۔اسی طرح اگر وہ ازخود وضو نہ کرسکتا ہو تو کوئی دوسرا شخص اسے وضو کروا دے۔

٭     اگر اس کے کسی عضو طہارت میں زخم ہو تو وہ اسے پانی کے ساتھ دھوئے، اگر پانی کے ساتھ دھونے سے تکلیف یا مرض میں اضافہ ہو تو وہ اس پر مسح کر لے اور وہ اس طرح کہ اپنے ہاتھ کو پانی سے تر کر لے اور اسے زخم پر پھیر دے اور اگر مسح کرنا نقصان دہ ہو تو وہ اس زخم پر بھی تیمم کر لے۔

٭     اگر کوئی عضو ٹوٹا ہو اور اس پر پٹی بندھی ہو یا پلستر لگا ہو تو وہ اسے دھونے کے بجائے، پانی کے ساتھ مسح کر لے، اسے تیمم کی ضرورت نہیں کیونکہ دھونے کے بجائے مسح کیا جا سکتا ہے۔

٭     یہ بھی جائز ہے کہ وہ دیوار پر ہاتھ پھیرکر تیمم کر لے یا کسی دوسری ایسی پاک چیز پر ہاتھ پھیر کر تیمم کر ے جس پر غبارپڑاہوا ہو، دیوار پر اگر کسی ایسی چیز کی تہہ ہو جو زمین کی جنس سے نہ ہو، مثلاً: اس پر پلستر وغیرہ کیا گیا ہو تو اس کے ذریعہ تیمم نہ کرے الاّیہ کہ اس پر غبار موجود ہو۔

٭     اگر زمین، دیوار یا کسی ایسی چیز کے ذریعہ تیمم کرنا ممکن نہ ہو، جس پر غبار ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ مٹی کو کسی برتن یا رومال میں رکھ لیا جائے اور اس کے ساتھ تیمم کرلیا جائے۔

٭     اگر وہ ایک نماز کے لیے تیمم کرے اور دوسری نماز کے وقت تک اس کی طہارت باقی ہو تو وہ اس نماز کو بھی پہلے تیمم ہی کے ساتھ پڑھ سکتاہے،اب دوسری نماز کے لیے دوبارہ تیمم نہ کرے کیونکہ اس کی طہارت برقرار ہے اور وہ (طہارت ختم کرنے والی) کسی چیز کے ساتھ ختم نہیں ہوئی۔

٭     مریض کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے بدن کو تمام نجاستوں سے پاک رکھے اور اگر اسے اس کی طاقت نہ ہو تو وہ حسب حال نماز پڑھ لے، اس کی نماز صحیح ہوگی اور اسے اس کے اعادہ کی بھی ضرورت نہیں۔

٭     مریض کے لیے واجب ہے کہ وہ پاک کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھے۔ اس کے کپڑے اگر ناپاک ہو جائیں تو دھونا یا انہیں پاک کپڑوں کے ساتھ تبدیل کر لینا واجب ہے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو وہ حسب حال نماز پڑھ لے، اس کی نماز صحیح ہوگی اور اس کے اعادہ کی بھی ضرورت نہیں۔

٭     مریض کے لیے واجب ہے کہ وہ کسی پاک چیز پر نماز پڑھے۔ اگر اس کی جگہ ناپاک ہوگئی ہو تو اسے دھونا یا کسی پاک چیز سے بدلنا یا اس پر کوئی پاک چیز ڈال دینا واجب ہے۔ اور اگر ممکن نہ ہو تو وہ حسب حال نماز پڑھ سکتا ہے اس کی نماز صحیح ہوگی اور اس کے اعادہ کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔

٭     مریض کے لیے یہ جائز نہیں کہ طہارت سے معذوری کی وجہ سے نماز کو وقت سے مؤخرکرے بلکہ اسے چاہیے کہ مقدور بھر طہارت حاصل کر کے نماز کو اس کے وقت پر ادا کرے، خواہ اس کے بدن، کپڑے یا اس کی جگہ پر کوئی ایسی ناپاکی ہو، جسے دور کرنے سے وہ عاجز ہو۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ203

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ