کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زکوۃ کامال کفارو مشرکین کو دینا جائز ہے یا نہیں اور یہ بھی واضح ہو کہ یہاں آج کل بہت بڑی قحط سالی ہو رہی ہے اور نرخ غلہ کا گراں ہو گیا ہے مخلوق نہایت درجہ پر پریشان حال ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں جو قحط سالی ہوئی تھی تو بیت المال میں سے کفار کوکچھ دیا گیا تھا یا کہ نہیں بینوا تو جروا۔
زکوۃ کا مال کفار و مشرکین کو دینا جائز نہیں ہے حدیث معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ہے ۔
اس حدیث کےتحت میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں
"وأن الزكاة لا تدفع إلى الكافر لعود الضمير في فقرائهم إلى المسلمين" [2]ہاں صدقۃ تطوع کفار و مشرکین کو دینا جائز ہے۔ ہدایہ میں ہے:
"ولا يجوز أن يدفع الزكاة إلى ذمي لقوله عليه الصلاة والسلام لمعاذ رضي الله تعالیٰ عنه: خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم قال ويدفع إليه ما سوى ذلك من الصدقة ) وقال الشافعي رحمه الله : لا يدفع ، وهو رواية عن أبي يوسف رحمه الله اعتبارا بالزكاة . ولنا قوله عليه الصلاة والسلام { تصدقوا على أهل الأديان كلها }ولولا حديث معاذ رضي الله عنه لقلنا بالجواز فى الزكاة انتھی " [3]حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ درایہ تخریج ہدایہ میں لکھتے ہیں:
حديث:
(سید محمد نذیر حسین)
[1] ۔ان کو خبر دو کہ اللہ نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے ان کے دو لتمندوں سے لی جائے اور ان کے فقیروں پر تقسیم کر دی جائے۔
[2] ۔ زکوۃ نہیں دی جا سکتی کیونکہ ہم کی ضمیر مسلمانوں کی طرف لوٹتی ہے۔
[3] ۔ذلی کو معاذ کی حدیث کی وجہ سےز کوۃ نہیں دی جائے گی اور اس کے علاوہ دوسرے صدقات دئیے جا سکتے ہیں امام شافعی اس کے بھی قامل نہیں ہیں ابویوسف کی ایک روایت بھی یہی ہے انھوں نے ان کو زکوۃ پر قیاس کیا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام اہل دین پر صدقہ کرو معاذ کی حدیث نہ ہوتی تو ہم فرض زکوۃ بھی کافر کو دینا جائز سمجھتے۔
[4] ۔سعید بن جیر نے مرفوعاً حدیث روایت کی کہ آپ نے فرمایا اپنے دین والوں کے علاوہ اور کسی پر صدقہ نہ کیا کرو تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تمھارے ذمے ان کی ہدایت نہیں ہے تو آپ نے فرمایا تمام ادیان والوں پر صدقہ کیا کرو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک یہودی گھرانے کو صدقہ دیا۔