کیا فرماتے ہیں محققین اس مسئلہ میں کہ زکوۃ اموال سوائے سوائم کے طرف سردار رئیس اعظم امیر المومنین کہ مشابہ صفات واستیلاخلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ہوں ارسال کرنا ضروری ہے یا ادلے وا فضل یا بجائے خود ادا کرنا ادلے وافضل ہے بینواتوجروا۔
درصورت مرقومہ مخفی مبادا کہ ادائے زکوۃ سراوعلانیہ اصلۃ ونیا بۃ بلا ریب روا ہے یعنی اصالۃ خود مالک مزکی ہو گا اور نیا بۃ ساتھ اذن دینے غیر کو کہ وہ غیر اصل مالک کی طرف سے ادا کردے اور غیر عام ہے کہ سلطان رئیس اعظم ہو یا کوئی اور ادنی شخص دیانت دار ہو لیکن نیابۃ میں زکوۃ علانیہ اداہوگی اور اصالۃ کی صورت میں اخفا کماحقہ پایا جاوے گا اور اخفا اقوی ہے علانیہ سے بدلیل :
بخاری میں ہے:
امام بخاری نے آیت پر اکتفا کیا اور کوئی حدیث ان کی شرط پر علانیہ کی نہیں پائی گئی کہ لاتے اور دوسرا باب ستر کا باندھا:
"باب الصدقة السر وقال ابوهريره رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم ورجل تصدق بصدقة فأخفاها، حتى لا تعلم شماله ما تنفق يمينه"؛ وقوله تعاليٰ :(إِن تُبْدُواْ الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِن تُخْفُوهَا وَتؤْتُوهَا الفُقَرَاءِ فَهُوَ خَيرٌ لَّكُمْ) وإذا تصدق على غني وهو لا يعلم الي آخر ما في صحيح البخاري"فتح الباری صفحہ 22 جلد2 انصاری میں ہے:
"بَابُ صَدَقَةِ السِّرِّ وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا صَنَعَتْ يَمِينُهُ وَقَوْلُهُ تَعَالَى إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خير لكم الْآيَةَ وَإِذَا تَصَدَّقَ عَلَى غَنِيٍّ وَهُوَ لَا يَعْلَمُ ثُمَّ سَاقَ حَدِيثَ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي قِصَّةِ الَّذِي خَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ ثُمَّ زَانِيَةٍ ثُمَّ غَنِيٍّ كَذَا وَقَعَ فِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ وَوَقَعَ فِي رِوَايَةِ غَيْرِهِ بَابُ إِذَا تَصَدَّقَ عَلَى غَنِيٍّ وَهُوَ لَا يَعْلَمُ وَكَذَا هُوَ عِنْدَ الْإِسْمَاعِيلِيِّ ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ وَمُنَاسَبَتُهُ ظَاهِرَةٌ وَيَكُونُ قَدِ اقْتَصَرَ فِي تَرْجَمَةِ صَدَقَةِ السِّرِّ عَلَى الْحَدِيثِ الْمُعَلَّقِ عَلَى الْآيَةِ وَعَلَى مَا فِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ فَيَحْتَاجُ إِلَى مُنَاسَبَةٍ بَيْنَ تَرْجَمَةِ صَدَقَةِ السِّرِّ وَحَدِيثِ الْمُتَصَدِّقِ وَوَجْهُهَا أَنَّ الصَّدَقَةَ الْمَذْكُورَةَ وَقَعَتْ بِاللَّيْلِ لِقَوْلِهِ فِي الْحَدِيثِ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ بَلْ وَقَعَ فِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ التَّصْرِيحُ بِذَلِكَ لِقَوْلِهِ فِيهِ لِأَتَصَدَّقَنَّ اللَّيْلَةَ كَمَا سَيَأْتِي فَدَلَّ عَلَى أَنَّ صَدَقَتَهُ كَانَتْ سِرًّا إِذْ لَوْ كَانَتْ بِالْجَهْرِ نَهَارًا لَمَا خَفِيَ عَنْهُ حَالُ الْغَنِيِّ لِأَنَّهَا فِي الْغَالِبِ لَا تَخْفَى بِخِلَافِ الزَّانِيَةِ وَالسَّارِقِ وَلِذَلِكَ خُصَّ الْغَنِيُّ بِالتَّرْجَمَةِ دُونَهُمَا وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ الْمُعَلَّقُ طَرَفٌ مِنْ حَدِيثٍ سَيَأْتِي بَعْدَ بَابٍ بِتَمَامِهِ وَقَدْ تَقَدَّمَ مَعَ الْكَلَامِ عَلَيْهِ مُسْتَوْفًى فِي بَابِ مَنْ جَلَسَ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ وَهُوَ أَقْوَى الْأَدِلَّةِ عَلَى أَفْضَلِيَّةِ إِخْفَاءِ الصَّدَقَةِ وَأَمَّا الْآيَةُ فَظَاهِرَةٌ فِي تَفْضِيلِ صَدَقَةِ السِّرِّ أَيْضًا وَلَكِنْ ذَهَبَ الْجُمْهُورُ إِلَى أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي صَدَقَةِ التَّطَوُّعِ وَنَقَلَ الطَّبَرِيُّ وَغَيْرُهُ الْإِجْمَاعَ عَلَى أَنَّ الْإِعْلَانَ فِي صَدَقَةِ الْفَرْضِ أَفْضَلُ مِنَ الْإِخْفَاءِ وَصَدَقَةُ التَّطَوُّعِ عَلَى الْعَكْسِ مِنْ ذَلِكَ وَخَالَفَ يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ فَقَالَ إِنَّ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي الصَّدَقَةِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى قَالَ فَالْمَعْنَى إِنْ تُؤْتُوهَا أَهْلَ الْكِتَابَيْنِ ظَاهِرَةً فَلَكُمْ فَضْلٌ وَإِنْ تُؤْتُوهَا فُقَرَاءَكُمْ سِرًّا فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ قَالَ وَكَانَ يَأْمُرُ بِإِخْفَاءِ الصَّدَقَةِ مُطْلَقًا وَنَقَلَ أَبُو إِسْحَاقَ الزَّجَّاجُ أَنَّ إِخْفَاءَ الزَّكَاةِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَفْضَلَ فَأَمَّا بَعْدَهُ فَإِنَّ الظَّنَّ يُسَاءُ بِمَنْ أَخْفَاهَا فَلِهَذَا كَانَ إِظْهَارُ الزَّكَاةِ الْمَفْرُوضَةِ أَفْضَلَ قَالَ بن عَطِيَّةَ وَيُشْبِهُ فِي زَمَانِنَا أَنْ يَكُونَ الْإِخْفَاءُ بِصَدَقَةِ الْفَرْضِ أَفْضَلَ فَقَدْ كَثُرَ الْمَانِعُ لَهَا وَصَارَ إِخْرَاجُهَا عُرْضَةً لِلرِّيَاءِ انْتَهَى وَأَيْضًا فَكَانَ السَّلَفُ يُعْطُونَ زَكَاتَهُمْ لِلسُّعَاةِ وَكَانَ مَنْ أَخْفَاهَا اتُّهِمَ بِعَدَمِ الْإِخْرَاجِ وَأَمَّا الْيَوْمَ فَصَارَ كُلُّ أَحَدٍ يُخْرِجُ زَكَاتَهُ بِنَفْسِهِ فَصَارَ إِخْفَاؤُهَا أَفْضَلَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ وَقَالَ الزَّيْنُ بْنُ الْمُنِيرِ لَوْ قِيلَ إِنَّ ذَلِكَ يَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْأَحْوَالِ لَمَا كَانَ بَعيدا فَإِذا كَانَ الإِمَام مثلا جَائِزا وَمَالَ مَنْ وَجَبَتْ عَلَيْهِ مَخْفِيًّا فَالْإِسْرَارُ أَوْلَى وَإِنْ كَانَ الْمُتَطَوِّعُ مِمَّنْ يُقْتَدَى بِهِ وَيُتَّبَعُ وَتَنْبَعِثُ الْهِمَمُ عَلَى التَّطَوُّعِ بِالْإِنْفَاقِ وَسَلِمَ قَصْدُهُ فَالْإِظْهَارُ أَوْلَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ[2] (سید محمد نذیر حسین)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور وہ آدمی جو چھپا کر صدقہ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو دائیں کی کار گزاری کا پتہ نہ چلے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تم صدقہ ظاہر کر کے دو تو یہ بھی اچھا ہے اور اگر چھپا کر فقیروں کو دے دو تو بھی تمھارے لیے بہتر ہے الایہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے چور زانی اور غنی کو صدقہ دے دیا اور وہ ان کو جانتا نہیں تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے صدقہ رات کے اندھیرے میں کیا تھا تو یہ صدقہ چھپا کر دینے کی ایک صورت تھی اگر وہ دن کو صدقہ کرتا تو غنی اور فقیر میں امتیاز کر لیتا کیونکہ عموماً دولت مند آدمی اپنی وضع قطع سے معلوم ہو جاتا ہے جمہور کا مسلک یہ ہے کہ یہ آیت نفلی صدقہ چھپا کر دینا افضل ہے بعض نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زکوۃ چھپا کر دینا افضل تھا اور آج کل ظاہر کر کے دینا بہتر ہے کیونکہ آج اگر کوئی چھپا کردے گا تو اس کے متعلق زکوۃ نہ دینے کی بد گمانی پیدا ہو جائے گی ۔ ابن عطیہ نے کہا آج کل چھپا کر دینا افضل ہے کیونکہ یا غالب ہو چکا ہے۔
جب نظام وصولی زکوۃ موجود تھا اس وقت تو ظاہر کر کے دینا ہی پڑتا تھا اور آج کل ہر آدمی اپنی زکوۃ خود ادا کرتا ہے لہٰذا آج کل چھپا کر دینا ہی بہتر ہے۔
[1]۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور ایک وہ آدمی جو مخفی صدقہ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو دائیں کی بخشش کا علم نہ ہو سکے یہاں صدقہ کو نکرہ بیان کیا گیا ہے تاکہ بڑے چھوٹے نفلی فرضی ہر طرح کے صدقہ کو شامل ہو سکے انس کی حدیث میں ہے کہ فرشتوں نے عرض کیا اے رب کیا تیری کوئی مخلوق پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت ہے فرمایا ہاں لوہاکہنے لگے کیا لوہے سے بھی زیادہ سخت کوئی چیز ہے فرمایا آگ ،کہنے لگے کیا آگ سے بھی کوئی چیز سخت ہے فرمایا پانی کہنے لگے کیا پانی سے بھی کوئی چیز سخت ہے؟ فرمایا ہوا کہنے لگے کیا ہوااسے بھی کوئی چیز سخت ہے فرمایا ہاں آدم کا وہ بیٹا جو دائیں ہاتھ سے صدقہ کرے اور بائیں کو خبر نہ ہونے دے۔
[2]۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو لوگ اپنے مال دن رات ظاہر اور پوشیدہ خرچ کرتے رہتے ہیں (الی قولہ)اور نہ وہ غم کھائیں گے۔