سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(327) نماز تہجد نیند یا تھکاوٹ یا غفلت کی وجہ سے رہ جائے اور وتر بھی نہ پڑھے ہوں تو اس بارے کیا حکم ہے؟

  • 2612
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 3261

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز تہجد سفر یا بیماری یا نیند کی غفلت وغیرہ سے چھوٹ جائے اور وتر کا وقت بھی نہ ہو تو کیا کرے؟ نماز قضا کرنے سے گناہ گار ہو گا یا نہیں۔ وتر نماز میں دعائے قنوت پڑھنا بھول گیا تو کیا کرے سجدہ سہو کرے سلام پھیرے یا دہرا دے۔


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سفر یا بیماری یا نیند کے غلبہ کی وجہ سے تہجد کی نماز چھوٹ جائے تو بہتر یہ ہے کہ دن میں قضا کرے
﴿وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ‌ خِلْفَةً لِّمَنْ أَرَ‌ادَ أَن يَذَّكَّرَ‌ أَوْ أَرَ‌ادَ شُكُورً‌ا (٦٢) (قرآن کریم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ جب آپ تہجد کی نماز بیماری اور درد و تکلیف یا نیند کی وجہ سے چھوٹ جاتی تو دن میں بارہ رکعت ادا فرماتے۔ (مسلم ، ترمذی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کا رات کا وظیفہ اور ورد (تہجد کی نماز، تلاوت قرآن) کی وجہ سے فوت ہو گیا اور اس نے ظہر کی نماز سے پہلے اس کی قضا کر لی تو گویا رات میں اپنے وقت میں ادا کیا۔ (مسلم)
وتر کی نماز کا وقت نکل جائے تو اس کی قضاء ضروری ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
«من نام عن الوترا ونسیہ فلیصل اذا ذکرو اذا استیقظ» (ترمذی، ابو داؤد وغیرہ)
بلا عذر شرعی فرض نماز کو وقت سے مؤخر کر دینا گناہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تم پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں جو باقاعدہ وضو کر کے پورے خضوع اور تعدیل ارکان کے ساتھ ان نمازوں کو ان کے مقررہ اوقات میں ادا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا اور جنت میں داخل فرمائے گا اور جو ایسا نہیں کرے گا وہ مشیت الٰہی کے ماتحت ہے معاف کر دے یا عذاب میں مبتلا کرے۔ (ترمذی، ابو دائود، موطا مالک)
واجب کو بھول کر چھوڑ دینے سے صرف سجدہ سہو واجب ہوتا ہے نماز کے دہرانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور رکن (فرض یا شرط) کے چھوڑ دینے سے نماز باطل ہوجاتی ہے اور نماز لوٹانی پڑتی ہے۔ دعائے قنوت نہ واجب ہے اور نہ رکن اس لیے اس کو بھول کر چھوڑ دینے کی صورت میں نہ سجدہ سہو ضروری ہے اور نہ نماز لوٹانے کی ضرورت ہے۔  (محدث دہلی جلد نمبر۸ شمارہ نمبر ۳)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 ص 154۔155
محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ