زکوۃ اور صدقہ فطر کا روپیہ یا مال اپنے ہاتھ سے دینا جائز ہے یا نہیں۔ بینواتوجروا۔
مسلمانوں کا اگر امام یعنی خلیفہ ہے تو زکوۃ اور صدقہ الفطر امام کو دینا چاہیے وہ اپنے ہاتھ سے اس کے مصارف میں صرف کرے :
اور تلخیص الجیر میں ہے:
سعد بن وقاص ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا ظالم حاکموں کو زکوۃ دی جائے سب نے کہا ہاں ابو صالح کہتے ہیں میرے پاس اتنا مال جمع ہو گیا جس میں زکوۃ آتی تھی میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو سعید سے پوچھا کیا میں زکوۃ خود تقسیم کر دوں یا بادشاہ کو دیدوں سب نے کہا بادشاہ کو دے دے میں نے کہا آج کل کے بادشاہوں کی علت تم دیکھتے ہی ہو پھر بھی کہنے لگے بادشاہ کودے دو قرباحہ کہتے ہیں میرے پاس کچھ مال تھا میں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا زکوۃ کس کو دوں کہنے لگے امراء کو دے دو میں نے کہا وہ اس سے اپنے کپڑے اور خرشوخرید لیں گے آپ نے فرمایا اگرچہ وہ ایسا کریں انہیں کو دے دو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اپنے مالوں کی زکوۃ امراء کو دے دیا کرو اگر وہ نیکی کریں گے تو اپنے لیے اور گناہ کریں گے تو انہیں پر ہو گا۔(کتبہ محمد بشیر عفی عنہ)(سید محمد نذیر حسین)
[1]۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمھارے پاس زکوۃ لینے والا آئے تو تم سے راضی ہو کر جائے کچھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کچھ زکوۃ لینے والے آکر ہم پر ظلم کرتے ہیں آپ نے فرمایا ان کو راضی کرو کہنے لگے ۔ اگرچہ وہ ہم پر ظلم کریں آپ نے فرمایا ان کو راضی کرو۔ اگرچہ تم پر ظلم ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمھارے پاس ایسے صدقہ لینے والے آئیں گے جن کو تم نا پسند کروگے جب وہ آئیں تو ان کو خوش آمدید کہو اور مال ان کے سامنے رکھ دو اگر وہ انصاف کریں گے تو ان کا بھلا ہو گا اور اگر ظلم کریں گے تو وبال انہی پر ہو گا ان کو راضی کرو تمھاری جبھی پوری ہو گی کہ وہ راضی ہو جائیں اور ان کو چاہیے کہ تمھارے لیے دعا کریں۔