کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک گاؤں میں ایک مدرسہ اس غرض سے قائم ہوا کہ اس میں قرآن و حدیث وفقہ کا درس دیا جاوے اور اس مدرسہ کی اطراف و جوانب کی بستیوں سے مٹھی کا چاول وصول ہو وے اور دور دور کی بستیوں سے چندہ وصول ہو آوے اور اسی مٹھی کے چاول اور چندہ کے روپیوں سے مدرسوں کو تنخواہ دی جاوے اسی بنا پر دو برس تک مدرسہ خوب چلا مدرسہ کے قبل مٹھی اٹھانے کا رواج نہ تھا خاص اس مدرسہ کی غرض سے مٹی کا انتظام کیا گیا تاکہ لوگوں پر زردفلوس دینے میں گراں نہ ہو اور سہولت سے کام بھی چلے اور عامہ مسلمین ثواب سے بہرہ مندہ ہوں اب بعض لوگ یہ کہہ کر مانع ہوتے ہیں کہ مٹھی کے چاول سے مدرسوں کو تنخواہ دینی جائز نہیں کیونکہ اس چاول کے مستحق مساکین ہیں اس صورت میں شرع شریف کا کیا حکم ہے بینوا توجروا۔
صورت مرقومہ میں واضح ہو کہ جب مٹھی کے چاول کا انتظام اور بندو بست صرف اس غرض سے کیا گیا ہے کہ اس سے اور چندہ کے روپیہ سے مدرسین کی تنخواہ دی جاوے تو مٹھی کے چاول اور چندہ کے روپیہ کا ایک حکم ہے جیسے چندہ کے روپیہ سے مدرسین کی تنخواہ دینا درست ہے دونوں میں کچھ فرق نہیں ہے صورت مسئولہ میں مٹھی کا چاول اس قسم کے صدقات سے نہیں ہے جن کے مستحق صرف مساکین و فقراء ہیں بلکہ از قسم چندہ واعانت علی البر ہے جس کا حکم آیت:﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى﴾[1] میں کیا گیا ہے پس بعض لوگوں کا مانع ہونا بے جاوناروا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ۔کتبہ محمد عبد العزیز عفی عنہ۔(سید محمد نذیز حسین )
[1]۔نیکی اور پرہیزی گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔