سادات مساکین کی خدمت گذاری کی مسلمانوں کو توفیق نہ ہو بجز زکوۃ سے امداد کرنے کے اور سادات کے لیے وسیلہ معاش موجود نہ ہو وہ اس بنا پر کہ خمس غنیمت ہمیں نہیں ملتا زکوۃ لینے کی ممانعت بنا مذکورہ سے تھی ہمیں زکوۃ لینی جائز ہے اور انہیں احق خیال کر کے زکوۃ دیجاوے تو جائز ہے یا نہیں اور زکوۃ ادا ہو گی یا نہیں اگر ادانہ ہوئی تو واپسی لازم ہے یا نہیں اگر واپسی کا مقدور نہ ہو تو کیا کیا جاوے ۔
واضح ہو کہ سادات بنی ہاشم کو زکوۃ لینا ہمیشہ اور ہر زمانہ میں حرام ہے احادیث صحیح صریح سے یہی ثابت ہے اکثر آئمہ دین کا یہی مذہب ہے عند الحنفیہ بھی یہی مفتی بہ ہے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت آئی ہے کہ اس زمانہ میں سادات بنی ہاشم کو بنی ہاشم سے زکوۃ لینا جائز ہے اور غیر بنی ہاشم سے جائز نہیں ۔ مگر یہ دونوں روایتیں عند الحنیفہ نا معتبر و غیر مفتی بہ ہیں۔کیونکہ احادیث صحیحہ و نیز ظاہر المذہب اور ظاہر الروایت کے خلاف دیکھو بحرالرائق و نہر الفائق و رسائل الارکان وغیرہ کتب معتبیرہ حنفیہ رہا سادات کا یہ خیال کہ ہمیں زکوۃ لینے کی ممانعت اس بات پر تھی کہ ہمیں غنیمت سے خمس ملتا تھا اور اب خمس نہیں ملتا ہے تو اب ہمیں زکوۃ لینی جائز ہے۔" سو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ سادات بنی ہاشم پر زکوۃ حرام ہونے کی علت یہ نہیں ہے کہ انہیں غنیمت سے خمس الخمس ملتا تھا بلکہ اس کی علت جو احادیث سے بصراحت ثابت ہے وہ یہ ہے کہ مال زکوۃ اوساخ الناس وغسالۃ الایدی ہے:
اور یہ علت مصرحہ و منصوصہ زکوۃ کی لازم الماہیتہ ہے جب اور جس وقت زکوۃ پائی جاوے گی اس کا اوساخ اور الناس اور غسالۃ الایدی ہونا ضروری وہ لازم ہو گا بناء علیہ سادات بنی ہاشم پر ہمیشہ اور ہر زمانہ میں زکوۃ کی حرمت ثابت ہو گی اور اگر سادات پر زکوۃ کی حرمت کی علت تقرر خمس الخمس ہونا تسلیم کر لیا جاوے جیسا کہ بعض لوگوں نے خیال کیا ہے تو اس تقدیر پر حرمت کی دو مستقل علت ہو نگی ایک زکوۃ کا اوساخ النسا و غسالۃ الایدی ہونا اور دوسری تقرر خمس الخمس اور صرف ایک علت کے ارتفاع سے معلول کا ارتفاع نہیں ہو گا بلکہ جب تک ایک علت (ادساخ الناس و غسالۃ الایدی ہونا) پائی جاوے گی تب تک معلول(سادات بنی ہاشم پر زکوۃ کا حرام ہونا)ضرور پایا جاوے گا اور یہ ایک علت ہر زمانہ میں پائی جاوے گی پس بنی ہاشم پر زکوۃ کی حرمت بھی ہمیشہ اور ہر زمانہ میں پائی جاوے گی علامہ محمد بن اسمعیل الامیر سبل السلام میں لکھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آل کو بندگی عطا فرمائی کہ وہ لوگوں کے ہاتھوں کی میل کچیل نہ کھائیں اور صدقات کے اہل بیت پر حرام ہونے کی اصل علت بھی یہی ہے اور ابو نعیم مرفوعاً اس علت کو بیان کیا ہے کہ ان کے لیے خمس میں سے خمس ہے جو ان کے لیے کافی ہے اور اگر ان کو خمس نہ ملے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے لیے زکوۃ حلال ہو جائے گی کہ ایک آدمی اگر اپنے مال یا حق سےمحروم ہو جائے تو اس کے لیے کسی دوسرے کا مال حلال نہیں ہو جائے گا وہ اس پر حرام ہی رہے گا۔
پس جب معلوم ہوا کہ سادات بنی ہاشم پر زکوۃ حرام ہے اور وہ زکوۃ کے مصرف نہیں ہیں تو زکوۃ انہیں دینا جائز نہیں اگر کوئی انہیں دانستہ دے گا تو زکوۃ ادا نہیں ہو گی اور واپس لے لینا ضروری ہو گا اور اگر واپسی ناممکن ہو تو پھر سے زکوۃ دینا ضروری ہے اور لاعلمی کی وجہ سے دیا ہے تو زکوۃ ادا ہو جاوے گی واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم ۔ کتبہ محمد عبد الرحمٰن المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔(سید محمد نذیر حسین)
[1]۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائق نہیں ہے یہ لوگوں کی میل کچیل ہے اور فرمایا:اے اہل ابیت تمھارے لیے صدقات حلال نہیں ہیں یہ ہاتھوں کی میل ہے اور تمھارے لیے خمس میں سےخمس ہے جو تمھیں کفایت کرے گا۔