کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک آدمی پیش امام مسجد کا ہے وہ ایک ایسا کام کرتاہے کہ کفر کو پہنچ جاتا ہے اور پھر اس سے توبہ کرتا ہے اور دوسری دفعہ پھر وہی کام کرتا ہے اور پھر توبہ کرتا ہے آخر کو کوئی مرتبہ کرتا ہے اس کی توبہ قبول ہوئی یا نہیں اب اس پر کفارہ یاتعزیر آتی ہے یا نہیں بینوا توجروا۔
صورت مسئولہ میں معلوم ہو کہ اگر وہ امام خالص دل سے توبہ کرتا ہے۔اور پھر اتفاق سے مبتلا ہوجاتا ہے اور پھر نادم شرمندہ ہوکر توبہ کرتا ہے اور پھر اخیر میں مبتلا ہوکر خلوص دل سے توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ قبول ہوجاوے گی ۔حدیث شریف میں آیا ہے:
یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا مثل بے گناہ کے ہے۔واللہ اعلم بالصواب حررہ السید ابوالحسن عفی عنہ(سید محمد نذیر حسین)
ہوالموفق:۔
جب کوئی شخص خالص دل سے توبہ نصوح کرے گا تو اس کی توبہ قبول ہوگی گوپہلے کئی مرتبہ توبہ کرکے توڑچکا ہو:
"یعنی ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایک بندہ نے ایک گناہ کیا پس کہا!اے میرے رب میں نے ایک گناہ کیا ہے سوتو اس کو بخش دے پس اللہ تعالیٰ نے کہا !کہ کیا میرے بندے نے جانا کہ اس کا رب ہے جوگناہ کوبخشتا ہے اور اس کی وجہ سے اسے پکڑتا ہے میں نے اس کے گناہ بخش دیے پھر جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ٹھیرا رہا پھر اس نے ایک گناہ کیا اور کہا! کہ اے میرے رب میں نے ایک گناہ کیا ہے سو اس کو تو بخش دے پس اللہ تعالیٰ نے کہا کہ کیا میرے بندے نے جانا کہ اس کارب ہے جو گناہ کو بخشتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کو پکڑتا ہے میں نے اس کے گناہ کو بخش دیا پس جو چاہے وہ کرے روایت کیا اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے ولنعم ما قیل۔
این درگه ما درگه نومیدی نیست
صـد بار اگـر توبه شکستی بازآ
پس صورت مسئولہ میں پیش امام جب اپنے گناہ کے کام سے توبہ نصوح کرے گا تو اس کی توبہ قبول ہوگی اوروہ گناہ کا کام جس کا وہ مرتکب ہوا ہے اگرموجب کسی کفارہ شرعیہ کا ہے تو وہ کفارہ اس پر لازم ہوگا ورنہ نہیں۔کتبہ محمد عبدالرحمان عفا اللہ عنہ۔
[1]۔گناہ سےتوبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔