سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11) ضاد کو اہل تجوید کیسے ادا کرتے ہیں؟

  • 26104
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1992

سوال

(11) ضاد کو اہل تجوید کیسے ادا کرتے ہیں؟
 السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس مسئلہ میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں کہ ضاد معجمہ کو اہل تجوید کیسے ادا کرتے ہیں ہندوستان کے اکثر عوام ضاد اور ضا میں فرق نہیں کرسکتے اور اس کو بصورت ظاء نمازوں میں ادا کرتے ہیں کیونکہ ضاد وظاء اکثر صفات میں مشترک ہیں لہذا امتیاز شکل ہے۔اور بعض اس کو پُردال کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔جب کہ ہندوستان والوں کی اکثر عادت ہے۔کتب تجوید وفقہ کے لحاظ سے کس جانب کو ترجیح ہے اس کو ظاء پڑھا جائے یا دال۔جواب مختصر اورصاف فرمائیں کہ جو لوگ ضاد اور ظاء میں تمیز نہیں کرسکتے وہ کیسے عمل کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے ان تینوں حروف کے مخارج سن لیں اور بعد میں اس کا حکم بیان کردیا جائے گا۔ضاد معجمہ کامخرج زبان کے دونوں کناروں میں سے کسی ایک کنارہ سے داڑھوں کے قریب ہے اس کی تصریح صرف کی کتابوں شافیہ۔رضی۔مفصل اور کتب تجوید میں مذکور ہے اور ظاء معجمہ دزال معجمہ وثاء مثلثہ کا مخرج سامنے ے دو اوپر ے دانتوں کا کنارہ اور زبان کا کنارہ ہے۔اورطاء۔دال اور تا منقوطہ کامخرج کنارہ زبان اور سامنے کے دواوپر کے دانتوں کی جڑ ہے۔اور ظاء ثا اور دال کا مخرج زبان کا کنارہ اور اوپر کی ڈاڑھوں کی جڑ ہے اور طاء دال اور تاء کامخرج زبان کاکنارہ اور اوپر کی داڑھوں کی جڑ سے لے کرتالو تک ہے۔

ابومحمد مکی نے لکھا ہے"ضاد کا لفظ سننے میں ظاء سے مشابہ ہے کیونکہ وہ حروف مطبقہ۔مجہورہ مستعلیہ سے ہے اگر دونوں کے مخرج میں اختلاف نہ ہوتا اور ضاد کو لمبا کرکے نہ پڑھا جاتا تو ضاد اور ظاء ایک ہی حرف ہوتے۔دال کالفظ ادا کرنے میں بڑی احتیاط چاہیے کیونکہ اگر کو پُرکردیا جائے یہ لفظ ظاء بن جائے گا اور اگر اس کو لمبا کرکے پڑھا جائے گا تو ضاد بن جائےگا کیونکہ ضاد اور ظاء مخرج اور صفات میں قریب قریب ہیں۔اور رسالہ "جہد العقل" جو کہ عرب اور شام کے علاقہ میں پڑھایا جاتاہے۔لکھا ہے حروف چارقسم کے ہیں ایک آنی۔جن میں مد بالکل نہیں ہے دوسرے زمانی جن کو ایک الف کے برابر کھینچا جاتا ہے مثلاً ضاد معجمہ اور حروف تفشی تو زمانی وطبعی کے قریب میں اور ان تمام حروف پر مستطیل کااطلاق ہوتا ہے پھر استطالت کے لیے ضاد ہی کو کیوں خاص کیاگیا ہے؟یہ سوال تو اچھا ہے لیکن جواب ذرا مشکل ہے ظاء اور ضاد مفظ اور تمام صفات میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں ماسوائے مخرج اور استقالہ کے کیونکہ  ظاء آنی کے قریب ہے اور ضاد میں استطالت ہے تاکہ یہ ظاء سے علیحدہ ہوسکے"اور پھر لکھا ہے ضاد۔ظاء اور دال یہ تمام جہر اور رخوۃ میں مشترک ہیں اور سننے میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔لیکن ظاء اور دال کا مخرج ایک ہی ہے اورضاد کا مخرج الگ ہے اگر ضاد کو زبان کے کنارہ اور ڈاڑھوں کے کنارہ سے بغیر پوری طرح آواز کوبلند کرنے کے پڑھے اور اس میں تفخیم (پُرکرنا) ارخوۃ۔جہر۔اور استطالت اور تھوڑی سی تفشی ہوتو ضاد کایہ صحیح مخرج ہے اور چونکہ ظاء اور ضاد میں بہت زیادہ مشابہت ہے۔لہذا میں اس کو ذرا تفصیل سے بیان کردیا ہے ۔ملاعلی قاری نے مقدمہ جزری کی شرح میں لکھا ہے۔اوراس کی تائید النشر فی قراءۃ العشر اور تفسیر اتقان سے ہوتی ہے۔یہ حرف(ضاد) ایسا نہیں ہے کہ اس کا زبان سے ادا کرنا مشکل ہوبعض اس کو طاء پڑھتے ہیں مثلاً مصری لوگ اور بعض اس کو دال سے مشابہ کرتے ہیں بعض ظاء کی آواز سے ادا کرتے ہیں چونکہ ظاء سے اس کی تمیز ذرا مشکل ہےلہذا مصنف نے اس کی پہچان پر زور دیا ہے کہ ضاد اور ظاء جہر ۔رخوۃ استعلاء اور اطباق میں مشترک ہیں اور مخرجیں الگ ہیں اورضاد میں کچھ استطالت ہے چونکہ عوام ظاء اور ضاد میں تمیز نہیں کرسکتے اور خاص بھی اس کو مشکل سے ادا کرتے ہیں لہذا امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کیمیائے سعادت میں لکھا ہے ضاد اور ظاء میں اپنی ہمت کے مطابق فرق کرے اور اگر نہ ہوسکے تو درست ہے۔

اور "مجموعہ سلطانی"میں ایک استفتا درج ہے کہ اگر ضاد کو ظاء یا ذال یا زاء سے پڑھے تو نماز فاسد ہوگی یا نہیں؟تواس کا جواب یہ لکھا ہےکہ نماز فاسد نہیں ہوگی اور ضاد کو دال کی آواز سے پڑھنے کی کوئی دلیل کتب تجوید یافقہ میں نہیں ہے بلکہ یہ حروف آپس میں بالکل علیحدہ ہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہیں ضاد رخوہ ہے اور دال شدیدہ ضادساکنہ ہے اور دال اس کے برخلاف ہے اورضاد مطبقہ ہے اور دال منفتحہ ۔ضاد مستعلیہ ہے اوردال متسفلہ۔ضاد مفخہ ہے۔اوردال رقیقہ ضاد مستطیلہ ہے اور دال آنی اور ضاد میں تفشی ہے اور دال اس کے برخلاف ہے اور  پھر ان کے مخرج میں جداجدا ہیں پس ضاد کو دال کی آواز میں پڑھنے میں بہت سے مفاسدہیں ہندوستانی جو اس کو دال کی صورت میں پڑھتے ہیں یہ بالکل غلط ہے تمام کتب تجوید وصرف وفقہ کے خلاف ہے بلکہ حروف عربی میں ایک نئے حرف کی ایجاد ہے کیونکہ دال پر حروف عربیہ میں سے نہیں ہے۔ضاد اورظاء آٹھ نو صفات میں مشترک ہیں یعنی دونوں مجہورہ۔رخوہ۔مطبقہ۔مستعلیہ۔ساکنہ۔مصمتہ۔مفخمہ ہیں اور استطالت ضاد کاخاص ہے۔

ملا علی قاری نے جویہ لکھا ہے کہ لوگ ضاد کے اخراج وادا میں مختلف ہیں یہ اس بنا پر ہے کہ لوگ اس کو صحیح طور پر ادا کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں یہ مطلب نہیں کہ علمائے فن تجوید اس کے مخرج میں مختلف ہیں۔کلاوحاشا۔بعض لوگوں نے ملا علی قاری کی اس عبارت سے لوگوں کو دھوکہ دیا ہے اور اس کو اس اختلاف کی بنا پر دال کی صورت میں پڑھنے لگے۔

حاصل کلام یہ کہ حروف دو قسم کے ہیں متبانیہ ومشتشابہہ پس  حروف متشابہ مخرج میں الگ ہوتےہیں اورصفات میں متحد مثلاً ضاد وظاء اور کبھی صفات میں تغایر ہوتا ہے اورمخرج میں اتحاد جیسا کہ طائ اور تالیکن ضاد معجمہ کو طاء مہملہ کے ساتھ کسی قسم کی مشابہت نہیں ہے اور اس کو دال کی آواز سے پڑھنا تو بہت ہی غلط ہے ان میں کوئی مناسبت ومشابہت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ فتاویٰ قاضی خاں میں لکھا ہے اگرضالین کو دالین پڑھے گا تو نماز فاسد ہوجائے گی اب درمختار عالمگیری اور طحاوی کافیصلہ سنیے اگر ایک حرف کی بجائے دوسرا حرف پڑھ دے اور معنی میں کوئی فرق نہ پڑھے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی مثلا ان المسلمین کی بجائے ان المسلمون پڑھ دے اور اگر معنی تبدیل ہوجائیں تو اگردونوں حرفوں میں بغیر کسی مشقت کے امتیاز ہوسکتا ہومثلاً طاء اورصاد کو صالحات کی جگہ تالحات پڑھ دے تو سب کے نزدیک نماز فاسد ہوجائےگی اور اگر ان میں امتیاز مشقت سے ہوتا ہوکہ جیسا ظاء وضاد اور صاد وسین اورطاء وتاتو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے اکثرکا فتویٰ یہ ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوگی"فتاویٰ قاضی خان بزازیہ۔طحاوی علیہ شرح نیسہ خانیہ اور ابن جنی کی کتاب "التنیہ"میں بھی اس کے قریب لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگرحروف میں آسانی سے امتیاز ہوسکتا ہو اور پھر امتیاز نہ کرے تو نماز فاسد ہوجائےگی اوراگرامتیاز مشکل ہو مثلاً ضاد اورظا کا تو اس صورت میں نماز صحیح ہوگی ہاں اگر ان میں امتیاز کرسکتا ہو اور پھر امتیاز نہ کرے۔تو اس صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی۔واللہ اعلم۔(سید نذیرحسین)

کچھ مدت سے اس شہر اور اس کے ماحول میں مسلمانوں میں اس بات میں جھگڑا چل رہا ہے کہ ضاد کا صحیح تلفظ کیا ہے بعض اس کو دال سے مشابہ پڑھتے ہیں اوربعض ظاء کے مشابہ بلکہ بعض تواس کو بعینہ دال کی آواز میں پڑھتے ہیں۔اگر کوئی فرق کرتے ہیں۔تو یہ کہ ضاد کو دال پر کی آواز میں اداکرتے ہیں !اور یہ خود ایک بہت بڑی غلطی ہے اولاً یہ کہ حروف تہجی میں یہ ایک نئے حرف کی ایجاد ہے کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا ہے کہ ضاد کی دو قسمیں ہیں ایک دال کے مشابہ اوردوسری ظاء کےمشابہ ثانیاً کتب قراءت وصرف وفقہ میں لکھا ہے کہ ضاد اور ظاء میں امتیاز بہت مشکل ہے کیونکہ یہ صفات میں مشترک ہیں سوائے استطالت کے کے ضاد میں ہے اور ظاء میں نہیں ہے اور یا پھر اصلی مخرق میں فرق ہے لیکن ان کے مخارج ہیں امتیاز مشکل ہے اس سے معلوم ہوا کہ ضاد حقیقت میں وہی ہے جو ظاء سےمشابہ ہو نہ وہ ضاد جو دال کے قریب ہو اور ان دونوں میں فرق کرنا بالکل آسان ہے مشکل نہیں ہے اور ثالثا ً یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ضاد کو ضاء کی آواز میں پڑھنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی اور والی کی آواز میں پڑھنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے جب کہ کتب فقہ کے حوالے سے پہلے گزرچکا ہے۔واللہ اعلم۔

     ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی نذیریہ

جلد:2،کتاب الاذکار والدعوات والقراءۃ:صفحہ:28

محدث فتویٰ

تبصرے