کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرح متین وقاریان قرآن مجید وواقفان علم تجوید رحمہم اللہ تعالیٰ اس مسئلہ میں کہ زید حرف ضاد کو دواد مانند صورت دال مہملہ کے پڑھتا ہے اور اس کو دواد بولتا ہے اور ض مماثل ظ کے پڑھنے سے منع کرتا ہے اورکہتا ہے اگر کوئی شخص بجائے ضاد کے ظا پڑھے گا تو اس کے نماز فاسد ہوجائے گی اورعمرو حرف ضاد کو جس جگہ پر کہ قرآن مجید میں آتا ہے مانندصوت ظاد معجمہ کے پڑھتا ہے اور اس کو ذواد بولتا ہے اور ض مماثل دال کے پڑھنے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ حرف دواد بے اصل دبے ثبوت ہے اور محض مہمل ہے اور اس کے وجود کا کسی جاکتب فقہ وتفسیر وتصریف وتجوید وسلوک میں جن کا اس باب میں اعتبار ہے پتہ ونشان نہیں پس جبکہ کتب معتبرہ ومستندہ میں حرف دواد کا ذکر نقل نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ معدوم ہے اور اس کے پڑھنے سے نماز میں خلل آتا ہے اور کہتا ہے اگر کوئی شخص بجائے ضاد کے ظاء پڑھے بایں جہت کہ اداکرنا ضاد کا مخرج سے سخت دشوار ہے اور ضاد کو ظاء سے مشابہت بہت ہے اور فرق کم تو نماز اس کی موافق مذہب مفتی بہ کے صحیح رہے گی اور کہتا ہے عموم بلوی ضاد اوردال میں معتبر نہیں ہوگا۔پس سوال یہ ہے کہ ان دونوں شخصوں میں سے کس شخص کا قول وفعل صحیح ہے اور کس کا قول وفعل غلط۔بینوا توجروا۔
ان دونوں شخصوں میں سے عمرو کا قول وفعل صحیح ہے اور زید کا قول وفعل غیر صحیح عمر کا یہ قول کہ(اگر کوئی شخص بجائے ضاد کے ظاپڑھے بایں جہت کہ ادا کرنا ضاد کا مخرج سے سخت دشوار ہے اور ضاد کو ظاء سے مشابہت بہت ہے اور فرق کم تو نماز اس کی موافق مذہب مفتی بہ کے صحیح رہے گی)اس لیے صحیح ہے کہ اس قول میں تین دعوے ہیں اور تینوں مدلل بدلائل صحیحہ ہیں۔
1۔ایک دعویٰ یہ ہے کہ کہ چونکہ ضاد کا مخرج سے اداکرنا سخت دشوار ہے۔
2۔اور دوسرادعویٰ یہ ہے کہ ضاد کو ظاء سے بہت مشابہت اور فرق کم۔
3۔اور تیسرا دعویٰ یہ ہے کہ چونکہ ضاد کا مخرج سے اداکرنا سخت دشوار ہے اور ضاد کو ظاء سے بہت مشابہت ہے اس لیے اگر کوئی شخص بجائے ضار کے ظاء پڑھے تو نماز اس کی موافق مذہب مفتی بہ کے صحیح رہے گی اب ہر ایک دعوے کی دلیل لکھی جاتی ہے تاکہ عمرو کے اس قول کی صحت معلوم ہوپہلے دعوے کی دلیل یہ ہے کتاب النشر فی قراءت العشر میں مرقوم ہے:
"وليس في الحروف ما يعسر على اللسان مثله، فإن ألسنة الناس فيه مختلفة وقلَّ من يحسنه""یعنی جیسا ضاد کا ادا کرنا زبان پر دشوار ہے ویسا کسی حرف کا اداکرنا دشوار نہیں اسی وجہ سے لوگوں کی زبانیں اس کے ادا کرنے میں مختلف ہیں اور کم لوگ ہیں جو اس کو اچھی طرح سے ادا کرسکیں علامہ جزری تمہید فی علم التجوید میں لکھتے ہیں:
"واعلم أن هذا الحرف ليس من الحروف حرف يعسر على اللسان غيره"" یعنی حروف میں حرف ضاد کی طرح کوئی اور حرف دشوار نہیں ہے علامہ ابومحمد مکی کتاب الرعایہ میں لکھتے ہیں۔ضاد کے پڑھنے میں قاری کو لحاظ ومحافظت کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ ایک ایسا امر ہے کہ میں نے اس میں بہت سے قراء اور ائمہ کوقصور کرتے ہوئے دیکھا وجہ اس کی یہ ہے کہ ضاد کا اداکرنا دشوار ہے ان لوگوں پرجن کو اس کی مشاقی نہیں ہے۔اوردوسرے دعوے کی دلیل یہ ہے علامہ ابومحمد مکی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الرعایہ میں لکھتے ہیں:
"والظاء حرف يشبه لفظه في السمع لفظ. الضاد"یعنی ضاد ایک ایساحرف ہے جو سننے میں ظاء کے مشابہ ہے علامہ شعلہ موصلی حنبلی شرح شاطبیہ موسوم بہ کنز المعانی شرح حرز الامانی میں لکھتے ہیں:
"أن الضاد والظاء والذال متشابهه في السمع ، والضاد لا تفترق عن الظاء إلا باختلاف الخرج وزيادة الاستطالة في الضاد ولولاها لكانت إحداهما عين الأخرى "یعنی ضاد اور ظار اور زال سننے میں باہم متشابہ ہیں اور ضاد اور ضاء میں صرف دو بات کا فرق ہے ایک تو یہ کہ ان دونوں کامخرج الگ الگ ہے اوردوسرے یہ کہ ضاد میں استطالت ہے اور ظامیں نہیں اگر ان دونوں کافرق نہ ہوتاتو یہ دونوں حرف ایک ہوجاتے ۔علامہ محمد بن محمد حرزی تمہید فی علوم التجوید میں لکھتے ہیں:
"والناس يتفاوتون في النطق بالضاد , فمنهم من يجعله ظاء لأن الضاد يشارك الظاء فيصفاتها كلها ويزيد على الظاء بالاستطالة فلولا الاستطالة واختلاف المخرجين لكانت ظاؤهم أكثر الشاميين وبعض أهل الشرق . وحكى ابن جني في كتاب التنبيه وغيره أن من العرب من يجعل الضاد ظاء مطلقاً في جميع كلامهم وهذا قريب وفيه توسع للعامة انتهى ""یعنی لوگ ضاد کے ادا کرنے میں مختلف ہیں بعض لوگ تو ضاد کو ظاہر بولتے ہیں اور یہ اکثر شام والے ہیں اور بعض اہل شرق اور ان لوگوں کے ضاد کو ظاء پڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ حرف ضاد حرف ظا کی تمام صفتوں میں مشارک ہے اور اس میں استطالت کی صفت زائد ہے جو حرف ظاء میں نہیں ہے سواگر ضاد میں استطالت کی صفت نہ ہوتی اور اور اس کا مخرج ظاء کے مخرج سے الگ نہ ہوتاتو ضاد عین ظاءہوجاتا اور ابن جنی نے اپنی کتاب النتبیہ میں لکھا ہے کہ بعضے عرب عام طور پر اپنے تمام کلام میں ضاد کو ظابولتے ہیں۔اور یہ قریب ہے اور اس میں عوام کے لیے وسعت ہے۔"
قصیدہ جزریہ میں ہے:
وَالضَّادَ بِاسْتِطَالَةٍ وَمَـخْرَجِ ♢♢♢ مَيِّزْ مِنَ الظَّاءِ وَكُلُّهَا تَجِي.یعنی ضاد اور ظ میں صرف استطالت اور مخرج کافر ق ہے۔ض اورظ میں بجز استطالت ومخرج کے تمام صفات میں مشارک ومشابہ ہونا ۔ایک ایسی بات ہے کہ اس پر تمام علمائے فن تجوید کااتفاق ہے لہذا دوسرے دعوے کے ثبوت میں جس قدر عبارتیں نقل کی گئی ہیں کافی ووافی ہیں اور عبارتوں کی نقل کی کچھ ضرورت نہیں۔اور تیسرے دعوے کی دلیل یہ ہے تاریخ ابن خلقان جلد دوم صفحہ 299 میں علامہ ابن الاعرابی اللغوی کے ترجمہ میں مرقوم ہے:
"جائـز في كلام العـرب أن يعاقبـوا بين الضـاد والظاء ، فـلا يخطئ منيجعـل هـذه في موضـع هـذه . وينشـد : إلى الله أشكـو من خليل أوده ثلاث خلال كلها لي غائـض بالضـاد ويقـول هكذا سمعته من فصحـاء العـرب"یعنی علامہ ابن الاعرابی لغوی کہتے تھے کہ کلام عرب میں ضاد کو بجائے ظاء کے اور ظاء کو بجائے ضاد کے پڑھنا جائز ہے پس جو شخص ضاد کی جگہ ظاپڑھے یا ظاء کی جگہ ضاد پڑھے تو وہ خاطی نہیں کہا جائے گا علامہ ابن الاعرابی کا یہ قول نص صریح ہے اس بات پر کہ جو شخص قرآن مجید میں ضاد کی جگہ ظاپڑھے وہ خاطی نہیں ہے اور جب وہ خاطی نہیں ہے تو اس کی نماز بلاشبہ صحیح ودرست ہوگی علامہ فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں لکھتےہیں:
"المسألة العاشرة : المختار عندنا أن اشتباه الضاد بالظاء لا يبطل الصلاة ، ويدل على أن المشابهة حاصلة بينهما جداً والتمييز عسر ، فوجب أن يسقط التكليف بالفرق ، بيان المشابهة من وجوه : الأول : أنهما من الحروف المجهورة ، والثاني : أنهما من الحروف الرخوة ، والثالث : أنهما من الحروف المطبقة/ والرابع : أن الظاء وإن كان مخرجه من بين طرف / اللسان وأطراف الثنايا العليا ومخرج الضاد من أول حافة اللسان وما يليها من الأضراس إلا أنه حصل في الضاد انبساط لأجل رخاوتها وبهذا السبب يقرب مخرجه من مخرج الظاء ، والخامس : أن النطق بحرف الضاد مخصوص بالعرب قال عليه الصلاة والسلام : "أنا أفصح من نطق بالضاد"([2]) فثبت بما ذكرنا أن المشابهة بين الضاد والظاء شديدة وأن التمييز عسر ، وإذا ثبت هذا فنقول : لو كان هذا الفرق معتبراً لوقع السؤال عنه في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلّم وفي أزمنة الصحابة ، لا سيما عند دخول العجم في الإسلام ، فلما لم ينقل وقوع السؤال عن هذه المسألة البتة علمنا أن التمييز بين هذين الحرفين ليس في محل التكليف"."یعنی دسواں مسئلہ ہمارے نزدیک مختار یہ ہے کہ ضاد کا ظاء کے ساتھ مشابہ ہونا نماز کو باطل نہیں کرتا ہے اور اس پردلیل یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان نہایت مشابہت ہے اور ان دونوں میں تمیز کرنا مشکل ہے اس وجہ سے یہ بات واجب ہوئی کہ ان دونوں کے درمیان فرق کرنے کی تکلیف ساقط ہو اور ان دونوں میں مشابہت کا بیان کئی وجہوں سے ہے اول تو یہ ہے کہ دونوں حرف حروف رخوہ سے ہیں اور تیسرے یہ کہ دونوں حرف حروف مطبقہ سے ہیں اور چوتھے یہ کہ اگرچہ ظا کامخرج زبان اور ثنایا یا علیا کی نوک ہے۔اورضاد کامخرج زبان کےکنارہ سے ہے مع اضراس کے جو کنارہ زبان سے متصل ہیں مگر چونکہ ضاد میں بوجہ اس کے رخوہ ہونے کے انبساط اور کشادگی حاصل ہے اس وجہ سے ضاد کا مخرج ظا کے مخرج سے قریب ہے اور پانچویں یہ کہ نطق بحرف ضاد عرب کے ساتھ مخصوص ہے ہمارے اس بیان سے ثابت ہوا کہ ضاد اورظا کے درمیان نہایت مشابہت ہے اور دونوں میں تمیز کرنا مشکل ہے جب یہ ثابت ہوچکا تو ہم کہتے ہیں کہ اگر ان دونوں حرفوں میں فرق کرناضروری ہوتاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اورصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے زمانہ میں بالخصوص جبکہ عجمی لوگ داخل ہوئے اس کے بارے میں ضرور سوال واقع ہوتا۔پس جب اس بارے میں سوال واقع ہونامنقول نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ ان دونوں حرفوں میں تمیز کرنے کی ہم لوگوں کوتکلیف نہیں دی گئی ہے۔فتاوے قاضی خان میں ہے:
"لو قرأ الضالين بالظاء مكان الضاد أو بالذال لا تفسد صلاته ولو قرأ الدالين بالدال تفسد صلاته انتهى"یعنی اگر کسی نے ضالین کو ضاد کی جگہ ظ سے یاذ سے پڑھا تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی اوراگردالین دال سے پڑھا تو اس کی نماز فاسد ہوجاوے گی فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"[1]وان غير المعنى فان امكن الفصل بين الحرفين من فيرمشقة كالطاء مع الصادفقرأ الطالعات وكان الصالحات تفسد صلونه عند الكل وان كان لايمكن الفصل بين الحرفين وإن كان لا يمكن الفصل بين الحرفين إلا بمشقة كالظاء مع الضاد والصاد مع السين والطاء مع التاء اختلف المشايخ، قال أكثرهم: لا تفسد صلاته "ردالمختار میں ہے:
" فإن أمكن الفصل بينهما بلا كلفة كالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات ، بدل «الصالحات) فهو مفسد باتفاق أئمتهم، وإن لم يمكن التمييز بينهما إلا بمشقة كالظاء مع الضاد والصاد مع السين فأكثرهم على عدم الفساد لعموم البلوى "حاصل ان عبارتوں کا یہ ہے کہ چونکہ حرف ضاد اور ظاء میں فرق کرنا مشکل ہے اور بلامشقت کے فرق نہیں ہوسکتا اس لیے ضاد کی جگہ ظاء پڑھنے سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔اور یہی مضمون فقہ حنفی کی بہت سی کتابوں میں مرقوم ہے الحاصل عمرو کا یہ قول کہ اگر کوئی شخص بجائے ضاد کے ظاپڑھے باین جہت کہ ادا کرنا ضاد کا مخرج سے دشوار ہے اور ضاد کو ظا سے مشابہت بہت ہےاور فرق کم تو نماز اس کی موافق مذہب مفتی بہ کے صحیح رہے گی،صحیح اور مدلل ہے اور جب اس کا یہ قول صحیح اور مدلل ہے تو اس کا فعل یعنی ضاد کو مانند صورت ظا کے پڑھنا بھی صحیح ودرست ہے اور یہیں سے ثابت ہوگیا کہ زید کا یہ قول کہ اگرکوئی شخص بجائے ضاد کے ظا پڑھے گا تو اس کی نماز فاسد ہوجاوے گی بالکل غلط ہے اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ زید کاضاد کو مانند صوت دال کے پڑھنا بالکل بے اصل وبے ثبوت ہے اورحسب تصریح قاضی خان بجائے ضاد کے دال پڑھنے سے نماز فاسد ہوتی ہے۔اور عمرو کاض کو مماثل دال کے پڑھنے سے منع کرنا اور یہ کہنا کہ حرف دوادبے اصل وبے ثبوت ہے الخ۔بہت بجا اورصحیح ہے فی الوقت صرف ضاد کا مماثل دال کے ہونانہ تجوید کی کسی کتاب سے ثابت ہے اور نہ صرف یا فقہ تفسیر کی کتاب سے پس ضاد کا مماثل دال کے پڑھنا بلاشبہ بے دلیل وبے ثبوت ہے ۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔(سیدمحمد نذیرحسین)
[1]۔اگر معنی بدل جائیں تو اگر دو حرفوں میں امتیاز کرنا آسان ہومثلاً صاد اورطا۔صالحات کی بجائے طالحات پڑھ جائے تو نماز فاسد ہوجائےگی اور اگر باآسانی ان میں امیتاز نہ ہوسکتا ہوجیسے ضاد اور ظاء اور صاد اور سین وغیرہ تو اکثر مشائخ کے نزدیک نماز فاسد نہیں ہوگی۔