سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(9) علمائے حنفیہ کے نزدیک ذکر جہر ماسوائے مسنون جگہوں کے جائز ہے یا نہیں؟

  • 26102
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1416

سوال

 السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے حنفیہ کے نزدیک ذکر جہر ماسوائے مسنون جگہوں کے جائز ہے یا نہیں؟اگر جائز ہے تو مکروہ بھی ہے یا نہیں اور اس کی دلیل کیا ہے جو کچھ حنفی فقہ کی معتبرکتابوں سے آپ کو معلوم ہواہوا اسے تحریر فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  وتابعین میں سے اکثریت ذکر جہر کے مکروہ ہونے کے قائل ہیں تمام مذاہب تبعیہ کا اتفاق ہے کہ ذکر میں بلند آواز مستحب نہیں ہے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  ذکر جہر کو بدعت کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ادعوا رَبَّكُم تَضَرُّعًا وَخُفيَةً إِنَّهُ لا يُحِبُّ المُعتَدينَ ﴿٥٥﴾... سورة الاعراف

"اپنےرب کو عاجزی اورآہستگی سے پکارو۔وہ حد سے بڑھنے والوں کوپسند نہیں کرتا۔"

احناف نے اسی آیت کی بناپر اذکاروادعیہ میں اخفاء کو لازم قراردیا ہے ماسوائے ان مقامات کے جہاں ذکر جہر مسنون ہے "ادْعُوا" امر کا صیغہ ہے اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے اور واجب کا خلاف کراہت ہے۔اور جب کراہت کو مطلق ذکر کیا جائے تو اس سے مراد مکروہ تحریمی ہوتا ہے کتب  اصول میں اس کی تفصیل موجود ہے چنانچہ ہدایہ۔جوہریرہ۔کفایہ۔عنایہ۔فتح القدیر ۔عینی۔بحرالرائق قاضی خاں میں ذکر جہری کومکروہ اور بدعت لکھا ہے ۔اور امام ابوحنیفہ کے مسلک کی بنیاد اسی آیت پر ہے۔تفسیر کبیر میں:

﴿ إِنَّهُ لا يُحِبُّ المُعتَدينَ ﴿٥٥﴾... سورة الأعراف

کی تفسیر میں لکھا ہے کہ وہ تضرع کا خلاف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا یعنی بلند آواز سے دعا وذکر کرنے والے خدا کو پسند نہیں ہیں تو یہ مکروہ تحریمی کی تہدید ووعید ہے ۔اور اصول فقہ میں یہ بھی مقرر ہے کہ بدعت مطلقہ سے مراد بدعت سئیہ ہوتی ہے۔اورتہدید خلاف اولیٰ (مکروہ تنزہیی) پر نہیں ہوتی۔

غایۃ البیان شرح ہدایہ ۔کفایہ شرح ہدایہ۔بحرالرائق وغیرہ میں لکھا ہے کہ بلند آواز سے تکبیر کہنا بھی بدعت ہے البتہ ایام تشریق کی تکبیریں اس سے مستثنیٰ ہیں۔فتاوے قاضی خاں ۔مصفیٰ فتاوی علامیہ میں ذکر جہر کو مکروہ لکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے بہترین ذکر آہستہ ذکر کرنا ہے۔کیونکہ ذکر خفی میں ادب اور تضرع پایا جاتا ہے ریاکا شائبہ تک نہیں ہوتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا"تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے"ابن عباس نے لوگوں کو بلند آواز سے تکبیر کہتے سنا۔فرمایا کیا یہ لوگ امام کو سناتے ہیں؟کہا گیا نہیں تو فرمایا"یہ دیوانے لوگ ہیں۔جو لوگ اس امر(ادْعُوا)کو استحباب پرمحمول کرتے ہیں۔ان کے نزدیک جہر خلاف اولیٰ ہوگا۔لیکن اس صورت میں جمہور کا خلاف لازم آئے گا اللہ تعالیٰ نے ذکریا  علیہ السلام  کی  تعریف فرمائی اورفرمایا"اس نے اپنے رب کو آہستہ سے پکارا"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا"آہستہ دعا کرنا بلند آواز سے دعا کرنے سے ستر درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے"اور فرمایا"بہترین ذکر خفی ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کرے ارباب طریقت میں ذکر جہر کے متعلق اختلاف ہے۔بعض ذکر خفی کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس میں ریا نہیں ہے اور بعض ذکر جہر کو بہتر سمجھتے ہیں تاکہ اوروں کو بھی ترغیب ہو امام شافعی بلند آواز سے آمین کہنے کو بہتر سمجھتے ہیں اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  آہستہ کہنے کو افضل جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آمین یا دعا ہے یا خدا کا نام ہے اوردعا اور ذکر دونوں میں اخفاء بہتر ہے۔

جو لوگ ذکر جہر کو جائز سمجھتے ہیں وہ ابن عباس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز کے ختم ہونے کو صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی تکبیر سے معلوم کرلیتا تھا اُس سے معلوم ہوا کہ ذکر جہر درست ہے علمائے احناف نے اس کے چند جواب دیے ہیں۔پہلا یہ کہ:

﴿ إِنَّهُ لا يُحِبُّ المُعتَدينَ ﴿٥٥﴾... سورة الأعراف

کی تفسیر میں خود ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول ہے کہ"دعا میں زیادتی یہ ہے کہ انبیاء علیہ السلام  کے درجہ کے حصول کی دعاکرے یا ایسے عمل کی دعا کرے جس کا وہ مستحق نہیں ہے یا بلند آواز سے دعا کرے"دوسرا یہ کہ یہاں تکبیر سے مراد مطلق ذکر ہے اور یہ گاہے بگاہے بطور تعلیم ہوتا تھا نہ کہ ہمیشہ چنانچہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  اور نووی رحمۃ اللہ علیہ  نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  سے یہی نقل کیا ہے۔ابن بطال نے کہا کہ ابن حزم کے سوا باقی تمام علماء نے ذکر برفع صوت کو غیر مستحب لکھا ہے تیسرا جواب یہ ہے کہ یہاں تکبیر سے مراد تکبیرات انتقال ہیں۔جیسا کہ علامہ طیبی نے اس کی تصریح کی ہے۔چوتھا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ ایام تشریق کا ہے کہ ہر نماز کے بعد بلند آواز سے تکبیریں کہی جاتی ہیں۔پانچواں جواب یہ ہے کہ یہاں تکبیر سے وہ تکبیریں مراد ہیں جو تسبیح اور تمہید کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔بعض نے کہا اس سے وہ تکبیر مراد ہے جو سلام پھیرنے کے بعد ایک یا تین دفعہ پڑھی جاتی ہے۔پس جب حدیث میں چند احتمالات پیدا ہوجائیں تو استدلال باطل ہوجاتا ہے۔اور اگر اس حدیث کا وہی معنی مراد لیا جائے جو مجوزیں کہتے ہیں تو پھر بھی یہ حدیث قرآن کے معارض ہے۔اور ترجیح قرآن مجید کوہے۔بعض لوگوں سے اس حدیث سے بھی ذکر جہر پر استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔"جو مجھے اپنے دل میں یاد کرے میں بھی اس کو دل میں یاد کرتا ہوں"اس کا جواب یہ ہے کہ اس ذکر سے مراد نماز جماعت پنجگانہ ۔جمعہ۔خطبہ۔عیدین۔اذان اقامت۔تکبیرات تشریق اور تکبیرات انتقال ہیں اور اس کے علاوہ علم کا سیکھنا سکھلانا۔قرآن مجید کی تلاوت حجاج کاتلبیہ مراد ہے اور یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ذکر سے مراد خدا تعالیٰ نے کی تمام قسم کی عبادت ہے۔خواہ اوامر ہوں یانواہی اس سے معلوم ہوا کہ ذکر کے بہت سے طریقے ہیں تو اس صورت میں اس کو ذکر لسانی کے ساتھ خاص کرنا تحقیق کی راہ نہیں ہے کیونکہ اعتبار عموم الفاظ کا ہوتا ہے۔اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ :

﴿ادعوا رَبَّكُم تَضَرُّعًا وَخُفيَةً...﴿٥٥﴾... سورة الأعراف

امر اور منطوق وعبارۃ النص ہے۔اور یہ حدیث مفہوم ودلالۃ واشارۃ النص کے قبیل سے ہے اور منطوق اور عبارت۔مفہوم دلالۃ واشارۃ پر مقدم ہوتا ہے اور اس کی تصریح اصول فقہ میں موجود ہے۔اس کے علاوہ اگر اس حدیث سے ذکر جہر اور ذکر خفی دونوں کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے تو سلف صالحین ہوکر جہر کی کراہت کے قائل نہ ہوئے حالانکہ تفسیر مظہری میں ذکر جہر کی کراہت پر اجماع نقل کیا ہے تو اُس صورت مین عمل قرآن مجید کی آیت پر ہی ہونا چاہیے اور وہ جو حمودی نے شعرانی کا قول نقل کیا ہے"کہ ذکر جہر سے اگر سونے والوں کوتکلیف نہ ہوتو جائز ہے۔" اس کا قرآن مجید حدیث شریف اور فقہ کی تمام کتابوں کے خلاف اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔

آج کل جو بعض متاخرین ذکر جہر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے خلاف مداومت کررہے ہیں اور اس کو اس قدر رواج دیاگیا ہے کہ گویا اصل عزیمت یہی جہر ہے ان کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم  پر عمل  کرنا چاہیے نہ کہ کسی نیک آدمی کے قول پر شیخ عبدالقادر جیلانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے غنیۃ الطالبین میں لکھا ہے کہ صالحین کے افعال واحوال پر نظر نہ رکھنا چاہیے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل غورہے کہ اصول یہ ہے کہ جب متون شروح اورفتاویٰ میں اختلاف ہوجائے،تو  ترجیح متون اور شرح کو ہوتی ہے ہاں اگر تعلیم کی غرض سے گاہ ذکر جہر سے ہو اور اس پر مداومت نہ ہوتو کوئی حرج نہیں ہے۔چنانچہ شاذیہ حضرات ذکر جہر کو مکروہ بھی کہتے ہیں اور بغرض تعلیم احیاناً ذکر جہر کر بھی لیتے ہی۔واللہ اعلم۔(سید محمد نذیر حسین)

     ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی نذیریہ

جلد:2،کتاب الاذکار والدعوات والقراءۃ:صفحہ:13

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ