تسبیح کا پڑھنا بازار میں اور دوکان وغیرہ مواضع پر پڑھنا جائز ہے یا نہیں ۔بینوا۔
بحکم آیت[1]: ﴿لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ﴾ بازار ہیں اور دکان وغیرہ مواضع پر تسبیح وتہلیل وتمہید وذکر اللہ جائز ہے۔بشرط یہ کہ ریا سے خالی ہو اور اظہار وصلاح وتقوے کی غرض سے نہ ہواور مکروفریب کے لیے ہاتھ میں تسبیح لیے پھرنا اور بازار میں اور دکان وغیرہ مجمع عام میں بیٹھ کر سبحہ گرانی کرنا سخت ممنوع وناجائز ہے۔واللہ اعلم وعلمہ اتم۔(سید محمد نذیر حسین)
ہو الموفق:۔
اذکار اور جملہ عبادات کے لیے اخلاص اور نیت نیک نہایت ضروری ہے۔ریائی ذکر اور مکروفریب کی عبادت محنت بربادگناہ لازم کی مصدق ہے۔نیت کا حال تو خدا کو معلوم مگر دکان وغیرہ مناظر عامہ پر بیٹھ کر تسبیح پڑھنا اور اور بازاروں میں سبحہ گردانی کرتے پھرنا بظاہر ریا سے خالی نہیں۔ریاکار مکار کی تسبیح گردانی کے متعلق کسی کیا خوب کہاہے۔
سبحہ وردرست توہمی گوید
دل بگردان مراچہ گردانی
ہاں یہ بھی واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس تسبیح مروجہ کا وجود نہیں تھا۔علامہ قاری مرقاۃ شرح مشکواۃ میں لکھتے ہیں تحت حدیث:
(کتبہ محمد عبدالرحمان للمبارکفوری عفا اللہ عنہ)
[1]۔وہ ایسے آدمی ہیں کہ ان کوخریدوفروخت خدا کی یاد سے نہیں روک سکتی۔
[2]۔جو آدمی اچھی طرح وضو کرکے جمعہ کے لیے آئے اور خطبہ خاموشی سے سنے اس کے گناہ پچھلے جمعہ سے لے کر اس جمعہ تک دو تین دن کے زائد گناہ بھی بخشے جاتے ہیں اور جس نے کنکری کو چھوا اس نے لغو کیا کنکری کو ہاتھ لگانے سے مرد سجدہ کے لیے زمین کو برابر کرناہے اور بعض نے اس کا مطلب تسبیح پھیرنا لیا ہے۔ چونکہ یہ موجودہ تسبیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھی لوگ کنکریوں پر ہی تسبیح پڑھا کرتے تھے۔