تکبیرات ایام تشریق کی امام ومقتدی کو باآواز بلند کہنا چاہیے یا پوشیدہ۔بینواتوجروا۔
امام ومقتدی دونوں کو تکبیرات ایام تشریق باآواز بلند سے کہنا چاہیے ہکذا یستفاد من کتب الاحادیث والفقہ واللہ اعلم بالصواب حررہ السید ابوالحسن عفی عنہ۔(سید محمد نذیر حسین)
ہوالموفق:۔
تکبیرات تشریق کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اورحافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں جو کچھ لکھا ہے اس کو مع ترجمہ یہاں لکھ دینا مفید معلوم ہوتاہے۔
"باب التكبير أيام منى، وإذا غدا إلى عرفة وكان عمر يكبر في قبته بمنى فيسمع أهل المسجد فيكبرون، ويكبر أهل الأسواق حتَّى ترتج منى تكبيرا وكان ابن عمر يكبر بمنى تلك الأيام، وخلف الصلوات، وعلى فراشه، وفي فسطاطه ومجلسه وممشاه، تلك الأيام جمعا وكانت ميمونة تكبر يوم النحر. وكان النساء يكبرن خلف أبان بن عثمان وعمر عبد العزيز ليالي التشريق مع الرجال في المسجد"حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں لکھتے ہیں:
(وَقَدِ اشْتَمَلَتْ هَذِهِ الْآثَارُ عَلَى وُجُودِ التَّكْبِيرِ فِي تِلْكَ الْأَيَّامِ عَقِبَ الصَّلَوَاتِ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْأَحْوَالِ وَفِيهِ اخْتِلَافٌ بَيْنَ الْعُلَمَاءِ فِي مَوَاضِعَ فَمِنْهُمْ مَنْ قَصَرَ التَّكْبِيرَ عَلَى أَعْقَابِ الصَّلَوَاتِ وَمِنْهُمْ مَنْ خَصَّ ذَلِكَ بِالْمَكْتُوبَاتِ دُونَ النَّوَافِلِ وَمِنْهُمْ مَنْ خَصَّهُ بِالرِّجَالِ دُونَ النِّسَاءِ وَبِالْجَمَاعَةِ دُونَ الْمُنْفَرِدِ وَبِالْمُؤَدَّاةِ دُونَ الْمَقْضِيَّةِ وَبِالْمُقِيمِ دُونَ الْمُسَافِرِ وَبِسَاكِنِ الْمِصْرِ دُونَ الْقَرْيَةِ وَظَاهِرُ اخْتِيَارِ الْبُخَارِيِّ شُمُولُ ذَلِكَ لِلْجَمِيعِ وَالْآثَارُ الَّتِي ذَكَرَهَا تُسَاعِدُهُ وَلِلْعُلَمَاءِ اخْتِلَافٌ أَيْضًا فِي ابْتِدَائِهِ وَانْتِهَائِهِ فَقِيلَ مِنْ صُبْحِ يَوْمِ عَرَفَةَ وَقِيلَ مِنْ ظُهْرِهِ وَقِيلَ مِنْ عَصْرِهِ وَقِيلَ مِنْ صُبْحِ يَوْمِ النَّحْرِ وَقِيلَ مِنْ ظُهْرِهِ وَقِيلَ فِي الِانْتِهَاءِ إِلَى ظُهْرِ يَوْمِ النَّحْرِ وَقِيلَ إِلَى عَصْرِهِ وَقِيلَ إِلَى ظُهْرِ ثَانِيهِ وَقِيلَ إِلَى صُبْحِ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ وَقِيلَ إِلَى ظُهْرِهِ وَقِيلَ إِلَى عَصْرِهِ حَكَى هَذِهِ الْأَقْوَالَ كُلَّهَا النَّوَوِيُّ إِلَّا الثَّانِيَ مِنَ الِانْتِهَاءِ وَقَدْ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ عَن أَصْحَاب بن مَسْعُودٍ وَلَمْ يَثْبُتْ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ وَأَصَحُّ مَا وَرَدَ فِيهِ عَنِ الصَّحَابَةِ قَوْلُ على وبن مَسْعُود إِنَّه من صبح يَوْم عَرَفَة إِلَى آخر أَيَّام منى أخرجه بن الْمُنْذِرِ وَغَيْرُهُ وَاللَّهُ أَعْلَمُ)"یعنی صحیح بخاری میں ہے باب ایام منی کے تکبیر کے بیان میں اور جب کہ عرفہ کو جادے اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقام منی میں اپنے قبہ میں تکبیر کہتے تھے پس مسجد کے لوگ سن کر تکبیر کہتے اور بازار کے لوگ تکبیر کہتے یہاں تک کہ مقام منیٰ تکبیر سے گونج اُٹھتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما منیٰ میں ان دنوں میں نمازوں کے بعد، بستر پر، خیمہ میں، مجلس میں، راستے میں اور دن کے تمام ہی حصوں میں تکبیر کہتے تھے اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا دسویں تاریخ میں تکبیر کہتی تھیں اور عورتیں ابان بن عثمان اور عبدالعزیز کے پیچھے مسجد میں مردوں کے ساتھ تکبیر کہا کرتی تھیں۔فتح الباری میں ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو یہ آثار نقل کیے ہیں سو ان آثار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان دنوں میں تکبیر تشریق کا وجودتھا ۔نمازوں کے پیچھے بھی اور نمازوں کے علاوہ اور وقتوں میں بھی اور تکبیر تشریق کے متعلق علماء کے درمیان کئی مقام میں اختلاف ہے سو بعض علماء نے تکبیر تشریق کو نمازوں کے ساتھ خاص کردیا ہے(یعنی وہ کہتے ہیں کہ تکبیر تشریق کو فقط نمازوں کے بعد کہنا چاہیے اور دوسرے وقتوں میں نہیں) اور بعض نے فرض نمازوں کے ساتھ خاص کردیا ہے۔(یعنی وہ کہتے ہیں کہ صرف فرض نمازوں کے بعد تکبیر تشریق کہنا چاہیے اور نوافل کے بعد نہیں) اور بعض نے کہا صرف مردوں کو کہنا چاہیے اور عورتوں کو نہیں اور جماعت سے نماز پڑھنے والے کو چاہیے تنہا پڑھنے والے کو نہیں اور جو نماز ادا کی جاوے اس کے بعد چاہیے قضا کے بعد نہیں اور مقیم کو چاہیے مسافر کو نہیں اور شہر کے رہنے والے کو چاہیے دیہات کے رہنے والے کو نہیں اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مختار یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کو اور ان تمام وقتوں میں اوران تمام جگہوں میں تکبیر تشریق کہنا چاہیے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اس مختار کی تائید آثار مذکورہ سے ہوتی ہے اور علماء کے درمیان تکبیر تشریق کے ابتدا وانتہا میں بھی اختلاف ہے۔بعض کہتے ہیں یوم عرفہ کی صبح سے شروع کرنا چاہیے۔اور بعض نے کہا اس کی ظہر سے اور بعض نے کہا اس کی عصر سے اور بعض نے کہا کہ دسویں تاریخ کو صبح سے اور بعض نے کہا اس کی ظہر سے اور اس کا آخری وقت بعض نے دسویں تاریخ کی ظہر تک بتایا ہے اور بعض نے اس کی عصر تک اور بعض نے گیارہویں تاریخ ظہر تک اور بعض نے آخر ایام تشریق کی صبح تک اور بعض نے اس کی ظہر تک اور بعض نے اس کی عصر تک اور ان باتوں میں سے کسی بات کےمتعلق کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔اور اقوال صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں زیادہ صحیح قول حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے اور وہ یہ ہے کہ تکبیر تشریق یوم عرفہ کی صبح سے آخر ایام منی تک ہے اس کو ابن المنذر وغیرہ نے روایت کیا ہے۔واللہ اعلم۔
(کتبہ محمد عبدالرحمان المبارکفوری عفا اللہ عنہ)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب