کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ جمیع امور لیک مثل وقت وضو یا کھانے یا پینے یا وقت جماع وغیرہ کےسوائے شروع سورہ قرآن شریف کے پوری بسم اللہ یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنی سنت ہے یا فقط بسم اللہ پر اکتفا کرنا چاہیے۔اور درصورت پوری بسم اللہ پڑھنے کے بدعت ہوجاتی ہے یا نہیں۔بینواتوجروا۔
میرے فہم میں یہ سب تشددات ہیں الفاظ ماثورہ پراگرکچھ الفاظ حسنہ زیادہ ہوجاویں تو کوئی مضائقہ نہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح مسلم وغیرہ کتب حدیث میں موجود ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ تلبیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی قدر تھا:
اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر یہ کلمات زیادہ کرتے تھے:
بہت مواضع ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اورعلماء اسلام الفاظ ماثورہ پر د رود شریف اور دعوات میں بعض الفاظ زیادہ کرتے تھے۔اوریہ تعامل بلانکیر جاری رہا نماز میں بھی اگر ادعیہ ماثورہ پرزائد دعا پڑھی جائے تو کوئی مذائقہ نہیں دیکھو صحیح بخاری وغیرہ کتب حدیث میں ہے ایک شخص نےجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتا تھا قومہ میں یہ دعا پڑھی:
جس وقت آپ نماز سے فارغ ہوگئے آپ نے فرمایا یہ کلمات کس نے پڑھے ایک روایت میں ہے کہ آپ نے تین دفعہ فرمایا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ساکت ہوگئے اور پڑھنے والا ڈرگیا کہ شاید آپ میرے پڑھنے سے ناراض ہوگئے آپ نے فرمایا :
یعنی کس نے یہ کلمات کہے ہیں اس نے کوئی بُری بات نہیں کی پھر وہ شخص بولا:
یعنی تیس سے زیادہ کچھ فرشتے اس کے لکھنے کے واسطے آئے تھے ہر ایک چاہتا تھا کہ میں اس کو پہلے لکھوں۔اس سے صاف ثابت ہوا کہ ماثور پر زیادت جائز ہے کیونکہ یہ دعا اس شخص نے ا پنی طر ف سے ماثور پر زیادہ کی تھی اگر یہ تعلیم نبوی ہوتی تو خوف کس بات کا تھا جس سے وہ سکوت کرتا رہا اور جواب نہ دے سکا اسی طرح ایک شخص نے نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چھینک کر یہ دعا پڑھی۔
آپ نے نماز سے فارغ ہوکردودفعہ پوچھا یہ پڑھنے والا کون تھا کوئی نہ بولا تیسری دفعہ پھر پوچھا آخر وہ شخص بولا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے پڑھا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ اوپر تیس فرشتے دُور سے ان کلمات کے لیے کون اوپر لے جاوے گا۔
رواہ ابوداود والترمذی والنسائی حدیث میں فقط چھینک کے واسطے اس قدروارد ہے:
یہ زیادت اس شخص نے اپنی طرف سے کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تحسین فرمائی اس کے نظائر بکثرت ہیں اگر کل کا استعیاب کیا جاوے تو ایک مستقل کتاب بنے گی۔غرض یہ کہ اس قسم کے زیادات بدعت سے نہیں بلکہ:
میں داخل ہیں فقط عبدالجبار عفی عنہ۔(سید محمد نذیر حسین)
ہوالموفق:۔
اس مسئلہ کی تحقیق عون المعبود شرح سنن ابی داؤد صفحہ 409 جلد 4 میں بسط کے ساتھ کی گئی ہے من شاء زیادۃ التحقیق فلیراجع الیہ کتبہ محمد عبدالرحمان المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔
[1]۔ میں تیری جناب میں حاضر ہواہوں اے اللہ میں حاضر ہوں تیراکوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں حمد اورنعت تیری ہے بادشاہی تیری ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔
[2]۔میں تیری بابرکت جناب میں حاضر ہوں بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے میں حاضر ہوں تمام رغبتیں اور عمل تیرے ہی لیے ہیں۔
[3]۔اے اللہ تیرے ہی لیے تعریف ہے بہت زیادہ تعریف پاکیزہ اور برکت والی تعریف۔
[4]۔سب تعریفیں اللہ ہی کی ہیں بہت زیادہ تعریف پاکیزہ اوربرکت والی جیسی ہمارا رب پسندکرے اور جس پر اضی ہو۔
[5]۔ہرحال میں اللہ کی تعریف ہے۔
[6]۔ جوخوشی سے زیادہ نیکی کرے وہ اس کے لیے بہتر ہے۔