السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال یہ ہے کہ آپ چار اماموں میں سے کس امام کے مقلد ہیں؟ اگر تو آپ کسی امام کے مقلد ہیں تو ٹھیک ہے اور اگر آپ کسی امام کے مقلد نہیں تو پھر اہل حدیث لوگ امام شافعی رحمہ اللہ کے مسلک کے مسائل کیوں بیان کرتے ہیں؟
(سائل) (۱جون۲۰۰۱ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
معلوم نہیں آپ نے چار اماموں کی تخصیص کیسے کردی؟ اہل اسلام میں صرف چار امام نہیں، سینکڑوں امام گزرے ہیں، دین کی خاطر جن سب کی کاوشیں اپنی اپنی جگہ قابلِ قدر ہیں۔ جہاں تک تقلید کا تعلق ہے ، اس بارے میں عرض ہے کہ اہل علم نے ’’تقلید‘‘ کی تعریف یوں کی ہے کہ:
’ اَخْذ قَوْلِ الْغَیْرِ بِغَیْرِ دَلِیْلٍ ‘
یعنی دوسرے کی بات کو دلیل کے بغیر قبول کر لینا۔‘‘
اہل حدیث کا مسلک تقلیدی نہیں بلکہ وہ کتاب و سنت کے دلائل کے ساتھ مزین بات کو قبول کرتے ہیں چاہے کسی امام کے مسلک و مذہب کے مطابق ہو یا خلاف، اہل حدیث صرف امام شافعی کے نہیں بلکہ جملہ اہل اسلام کے تقابلی مسالک بیان کرتے ہیں،تاکہ دلائل کے ذریعے راجح بات واضح ہو سکے۔ اہمیت صرف اس بات کو دیتے ہیں جو کتاب و سنت کے مستند دلائل سے ثابت ہو۔ مثلاً امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ ’’تیمم‘‘ عارضی طہارت ہے ہر نماز کے لیے علیحدہ علیحدہ تیمم کرنا ہو گا جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تیمم عارضی طہارت نہیں بلکہ وضوء کے قائم مقام ہے۔ اہل حدیث کا مسلک بھی یہی ہے ۔ اس بناء پر نہیں کہ یہ حنفیہ کا مسلک ہے بلکہ اس لیے کہ اس کی دلیل مستند، قوی اور مضبوط ہے۔
چنانچہ حدیث میں ہے کہ
’اَلصَّعِیْدُ الطَّیِّب وُضوء‘(سنن أبی داؤد،بَابُ الْجُنُبِ یَتَیَمَّمُ،رقم:۳۳۲)
پاکیزہ مٹی سے تیمم کرنا وضوء ہی ہے۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ’’صحیح بخاری‘‘ میں یہی مسلک اختیار کیا ہے۔ رہ گیا معاملہ تقلید کا تو ائمہ کرام نے خود اپنی تقلید سے روکا ہے۔ چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو میری دلیل نہیں پہچانتا اس کے لیے حرام ہے کہ میرے قول کے ساتھ فتویٰ دے۔ ملاحظہ ہو: الانتقاء لابن عبدالبر اور ’’اعلام الموقعین‘‘ ابن قیم وغیرہ۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس کے لیے رسول اللہﷺ کی سنت واضح ہو جائے اس کے لیے حلال نہیں کہ کسی کے قول کی بناء پر اس کو چھوڑ دے۔‘‘ (الایقاض فلانی)
نیز فرمایا : ’’صحیح حدیث میرا مسلک ہے۔‘‘ (المجموع نووی رحمہ اللہ )
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب