صبح کی جماعت ہو رہی ہے اور کوئی شخص آ کر جماعت میں شریک ہو کر نماز ادا کر لے لیکن فجر کی سنت باقی رہ گئی ہوں تو یہ سنت کب ادا کرے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جماعت سے علیحدہ ہو کر سنت پڑھ لے پھر جماعت میں شریک ہو۔
جس کوئی شخص مسجد میں اس حال میں پہنچے کہ جماعت ہو رہی ہو یا اقامت شروع ہو چکی ہے تو سنت پڑھنی جائز نہیں نہ صف کے ساتھ مل کر نہ صف سے الگ اور نہ کھمبے کی آڑ میں نہ مسجد کے اندر مسجد سے متصل کسی حجرے یا برآمدے میں نہ مسجد سے باہر اس کے دروازے پر کہ فرض کے بجائے اس سے کم درجہ کسی چیز سنت میں مشغول ہونا معمولی عقل کے بھی خلاف ہے۔ سنت کی طرح کوئی دوسری چھوٹی ہوئی فرض بھی پڑھنی اس وقت جائز نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
إذا أقیمت الصلٰوة وفی روایة إذا أخذ المؤذن فی الاقامة فلا صلاة إلا المکتوبة التی اقیمت (احمد وغیرہ)
پس فجر کی اقامت شروع ہو جانے کے بعد فجر کی سنت نہیں پڑھنی چاہیے۔
قال الحافظ وزاد مسلم بن خالد بن عمرو بن دینار فی ھذا الحدیث قیل یا رسول اللّٰہ ولا رکعتی الفجر قال ولا رکعتی الفجر أخرجه ابن عدی فی ترجمة یحیی بن نصر بن حاجب واسنادہ حسن انتھی قال شیخنا فی شرح الترمذی والحدیث یدل علی انه لا یجوز الشروع فی النافلة عند إقامة الصلوٰة من غیر فوق بین رکعتی الفجر و غیرھما انتھیٰ
اور صحیح مسلم ابو داؤد و نسائی وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن سرجس سے مروی ہے۔
قال دخل رجل المسجد ورسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوة الغداوة فصلی رکعتین فی جانب المسجد ثم دخل مع رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فلما سلم رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم قال یا فلان بای الصلاتین اعتددت ابصلاتك وحدك أم بصلاتك معنا
جس شخص کی فجر کی سنت جماعت میں شامل ہو جانے کی وجہ سے چھوٹ جائے وہ اس سنت کو فرض سے فارغ ہو کر قبل آفتاب طلوع ہونے کے پڑھ سکتا ہے۔ (ابن حبان، ابن خزیمہ، بیہقی، ترمذی۔ ابو داؤد عن قیس بن عمرو بن سہل الانصاری) (محدث دہلی جلد ۹ شمارہ نمبر ۱۲)