سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(942) کیا حمل ٹھہرنے کے بعد عورت کا رحم جماع سے متاثر ہو سکتا ہے؟

  • 26057
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1820

سوال

 السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رحم میں نطفہ جب پہنچتا ہے تو ایک ہی جرثومہ بیضہ میں داخل ہوتا ہے پس اسی کیساتھ بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اگرچہ بعد میں جتنی بار بھی جماع کرے اور آزاد عورت جب حاملہ ہو تو اس کے ساتھ جماع برداشت کی حد تک ہو سکتا ہے۔ اس میں جواز ہے لیکن اعتراض یہ ہے کہ مشکوٰۃ جلد ثانی باب استبراء رحم میں نبیﷺ نے ’’غیلہ‘‘ سے منع فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا کہ یہ غیر کی کھیتی کو پانی پلانے والی بات ہے۔

حالانکہ زمین کو پانی ملنے سے فائدہ ہوتا ہے۔اس لونڈی کو تو رحم میں کوئی فائدہ نہیں ۔ مشبہ ، مشبہ بہ کے موافق ہی نہیں تو یہ آزاد عورت حاملہ ہو تو اجازت اور اسی طرح لونڈی کے لیے ممنوع اور علت ’سَقِیَ الْمَائَ زَرْعَ غَیْرِہٖ‘ حالانکہ معلول لہ میں معلول علیہ والی علۃ ہے ہی نہیں۔(احسان اللہ فاروقی۔ ڈیرہ غازی خان) (۲۶ مارچ ۱۹۹۹ئ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاریب حمل جب ٹھہرتا ہے تو اس کااستقرار ایک محفوظ مقام پر ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿أَلَم نَخلُقكُم مِن ماءٍ مَهينٍ ﴿٢٠ فَجَعَلنـٰهُ فى قَرارٍ مَكينٍ ﴿٢١ إِلىٰ قَدَرٍ مَعلومٍ ﴿٢٢ فَقَدَرنا فَنِعمَ القـٰدِرونَ ﴿٢٣﴾... سورة المرسلات

’’کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے نہیں بنایا(پہلے) اس کو ایک محفوظ جگہ میں ایک معین وقت تک رکھا پھر اندازہ مقرر کیا۔ اور ہم کیا ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں۔‘‘

اس کے باوجود اجسام میں وطی کے اثرات کا ظہور پذیر ہونا ایک طبعی امر ہے۔ اس کے کم از کم نفسیاتی تاثیر سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اہل تجارب کے ہاں یہ بات مشہور و معروف ہے ۔ جماع کا اثر خواہ بچہ کی تخلیق پر ہو یا نشوونما اور غذا وغیرہ میں سے جونسی بھی صورت ہو ،کسی نہ کسی نوع کی تاثیر کا امکان موجود ہے۔ حدیث ’سَقِیُ الْمَاء زَرْعَ غَیْرِہٖ‘ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ اس طرح مشبہ اور مشبہ بہٖ یعنی ولد اور زرع میں مطابقت پیدا ہو جاتی ہے اس امر کی تصدیق ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یوں ہیں:

’کَیْفَ یَسْتَعْبِدُهُ وَ قَدْ غَذَاهُ فِیْ سَمْعِهٖ وَ بَصَرِهٖ ۔‘ (بدایة المجتهد:۴۸/۲)

’’یعنی پہلے کی حاملہ سے جماع کرنے والابچہ کو اپنا غلام کیسے بنائے گا حالانکہ اس کے کان اور آنکھ میں اس نے غذا پہنچائی ہے۔‘‘

یاد رہے وطی صرف اس لونڈی سے ممنوع ہے جو قیدی بنتے وقت حاملہ تھی تاکہ سلسلہ نسب کااختلاط نہ ہونے پائے ورنہ عام حالات میں استبراء رحم(رحم کو پاک کرنا یعنی ماہواری کی آمد کاانتظار کرنا) کے بعد آزاد عورت کی طرح لونڈی سے بھی جماع جائز ہے ۔ بعد ازاں خواہ مالک سے حاملہ ہی کیوں نہ ہو پھر بھی جماع جائز ہے۔ سو حدیث ’سَقِیَ الْمَائَ زَرْعَ غَیْرِہٖ‘ کاتعلق صرف غیر کے حمل سے ہے نہ کہ اپنے سے اس میں تو آزاد عورت او رلونڈی دونوں کا جواز یکساں ہے۔

اس توجیہ اور تشریح سے باہمی علت کا اشتراک بھی عیاں ہوجاتا ہے۔ نیز واضح ہو کہ غیلۃ سے منع والی روایت مشکوٰۃ میں باب استبراء کے تحت بیان نہیں ہوئی بلکہ اس کا تعلق باب المباشرۃ سے ہے۔ اگرچہ اصلاًغیلہ جائز ہے لیکن موضوع ہذا سے غیر متعلق ہے۔ غیلہ کی تعریف امام مالک رحمہ اللہ اور اصمعی کے نزدیک یوں ہے۔

’اَن یُجَامِعَ اِمْرَأَتَهُ وَهِیَ مُرْضِع۔‘

’’حالت رضاعت میں بیوی سے مجامعت کرنا۔ یہ بھی یاد رہے اصل لفظ غِیلہ ہے غلیہ نہیں ہے جس طرح کے سوال میں ہے۔ (ملاحظہ ہو شرح مسلم نووی:۱۶/۱۰)

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:649

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ