سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(939) جامعہ کے فنڈ سے وظیفہ کے طور پر کچھ رقم اپنی ذات پر خرچ کرنا

  • 26054
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 603

سوال

 السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سائل نے ۱۸ سال قبل ایک ادارے کی بنیاد رکھی جس میں ایک مسجد، طلبہ کا جامعہ اور طالبات کا جامعہ موجود ہے۔ تینوں ذیلی ادارے باحسن طریق دین کی خدمت ادا کررہے ہیں۔ جامعہ کا جملہ انتظام وانصرام بذمہ سائل ہے اور سائل سرکاری ملازم ہے۔ سرکاری ملازمت کے بعد سارا وقت جامعہ کے امور پر گزارتا ہوں۔ ۱۶ کے قریب معلّمین اورمعلّمات تدریسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ بلکہ بطور مدیر میں ۱۸ سال سے تنخواہ بھی نہیں لے رہا۔ اب اولاد جوان ہورہی ہے، مہنگائی کی وجہ سے سرکاری تنخواہ اخراجات کو پورا نہیں کررہی۔

ایسے حالات میں کیا جامعہ سے تنخواہ/ وظیفہ کے طور پر کچھ رقم اپنے اوپر خرچ کرسکتا ہوں؟

صدقات وخیرات کے جانور سے یا جامعہ سے کھانا وغیرہ کھا سکتا ہوں یانہیں؟ اگر یہ مراعات لی جاسکتی ہیں تو اُن کی حد کیا ہونی چاہیے؟ جب کہ جامعہ کا جملہ کام حتی کہ فنڈ اکٹھا کرنا بھی میری ہی ذمہ داری ہے اور میں اکثر بیمار رہتا ہوں۔

قرآن وسنت کی روشنی میں اخبار الاعتصام میں فتویٰ جاری کرکے شکریہ کا موقع دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بوقت ضرورت ادارے کے فنڈ سے آپ بقدر حاجت اپنے اوپر خرچ کرسکتے ہیں ایسی صورت میں قرآنی آیت﴿ وَ مَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْج وَ مَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (النساء:۶)

’’جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدرِ خدمت) کچھ لے لے۔‘‘

یہ آیت کریمہ پیش نظر رہنی چاہیے آپ جیسے محتاج کے لیے جواز کی دلیل ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ منتخب ہوئے تو فرمایا ’’میری قوم کو علم ہے کہ میرا پیشہ میرے اہل وعیال سے تنگ نہ تھا۔ اب میں مسلمانوں کے کام میں مشغول ہوگیا ہوں پس میں اور میرے اہل وعیال اس مال سے کھائیں گے اور اسی میں حرفت کریں گے۔‘‘ (صحیح بخاری، بَابُ کَسْبِ الرَّجُلِ وَعَمَلِہِ بِیَدِہِ،رقم:۲۰۷۰)

یتیموں کی کفالت کے سلسلے میں قرآن کی تنبیہ سے بھی درس عبرت حاصل ہونا چاہیے کہ ﴿وَاللّٰهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ﴾

’’اللہ خوب جانتا ہے کہ خرابی کرنے والا کون ہے اور اصلاح کرنے والا کون۔‘‘

لطیفہ یاد آیا، ایک دفعہ مدرّسین نے انتظامیہ سے تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کیا، اس اثناء میں ایک خاموش حلیم الطبع مدرس سے دریافت کیا گیا، کیا اضافہ ہونا چاہیے؟ کہا اہل بیت سے پوچھ کر بتاتا ہوں۔ جواباً انھوں نے کہا گزارا ہورہا ہے، تو بھری مجلس میں کہا مجھے اضافے کی ضرورت نہیں۔ سچ ہے من تواضع للہ رفعہ اللہ۔ دراصل یہ معاملہ دیانت وامانت کا ہے جس کا تعلق خالق اور مخلوق سے ہے۔ روز جزاء جملہ معاملات کھل کر سامنے آجائیں گے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو کامیابی نصیب فرمائے، آمین۔

الحاصل بایں صورت آپ تنخواہ لے سکتے ہیں جب کہ جامعہ سے خور ونوش کا بھی جواز ہے۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:647

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ