السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی اس بیماری میں( جس سے اچھے ہو کر نہیں اٹھے) یوں فرمایا: اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔(بخاری شریف،ج:۱،ص:۶۰۱، کتاب الجنائز)
اب آپ سے مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ یہودیوں نے تو اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے مگر نصاریٰ نے کیسے اپنے نبی یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیا ؟ کیونکہ نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کو کہتے ہیں ۔ ایک قادیانی نے مجھ سے یہ سوال کیا ہے اور اس سلسلے میں مَیں بہت پریشان ہوں۔ (ایک سائل۔ لاہور) (۱۷ اپریل ۱۹۹۸ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نصوصِ صحیحہ صریحہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو زندہ آسمان پر ہیں۔ قرب ِ قیامت میں ان کا نزول ہوگا تو پھر دنیا میں ان کی قبر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا مرزا قادیانی اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے کہ ان کی قبر کشمیر میں ہے۔ حدیث ہذا میں جو کچھ بیان ہوا مجمل ہے۔ ’’صحیح مسلم‘‘ میں جندب کے طریق میں مفصل ہے:
’ کَانُوْا یَتَّخِذُوْنَ قُبُوْرَ اَنِْبِیَائِهِمْ وَ صَالِحِیْهِم مَسَاجِد‘(صحیح مسلم،بَابُ النَّهْیِ عَنْ بِنَاء ِ الْمَسَاجِدِ، عَلَی الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ الصُّوَرِ فِیهَا وَالنَّهْیِ عَنِ …الخ ،رقم:۵۳۲)
’’یعنی یہود و نصاریٰ نے اپنے انبیائ علیہم السلام اور اپنے نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘
مقصود یہ ہے کہ یہود نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ جب کہ نصاریٰ نے نیک لوگوں کی پوجا پاٹ کی۔ دلیل اس امر کی یہ ہے کہ دیگر روایات میں تذکرہ جب نصاریٰ کا ہوا تو وہاں صرف نیکو کار کی تصریح ہے۔ انبیاء کا ذکر نہیں۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ اُم سلمہ نے رسول اللہﷺ سے سرزمین حبشہ کے ایک کنیسہ کا ذکر کیا ہے وہ ایکھ کر آئی تھیں، اسے ماریہ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے ان تصویروں کا ذکر کیا۔ جنھیں وہ دیکھ کر آئی تھیں تو سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’ أُولَئِكَ قَوْمٌ إِذَا مَاتَ فِیهِمُ العَبْدُ الصَّالِحُ، أَوِ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، بَنَوْا عَلَی قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِیهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ‘ (صحیح البخاری،بَابُ الصَّلاَةِ فِی البِیعَةِ،رقم:۴۳۴)
’’یعنی یہ وہ لوگ ہیں جب ان میںکوئی نیک آدمی فوت ہو جاتا تو اس کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیتے۔ اور اس میں یہ تصویریں بناتے۔ اللہ کے ہاں یہ مخلوق میں بدترین ہیں۔‘‘
اور جب انفرادی طور پر یہود کا تذکرہ ہوا تو فرمایا:
’قَاتَلَ اللّٰهُ الْیَهُوْدَ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِهِمْ مَسَاجِدَ‘ (صحیح البخاری،بَابُ الصَّلاَةِ فِی البِیعَةِ،رقم:۴۳۷)
’’یعنی اللہ تعالیٰ یہود کو برباد کرے انھوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘
یہاں صرف انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہے نیکو کاروں کا نہیں۔
یہ بھی احتمال ہے کہ یہود کے ساتھ نصاریٰ کا ذکر اس بناء پر ہو کہ نصاریٰ تو انبیاء یہود کو برحق تسلیم کرتے تھے جب کہ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ گویا انبیاء یہود دونوں گروہوں کے نزدیک مکرم ٹھہرے۔ اس بناء پر دونوں ان کی عبادت میں شریک ہو گئے اور یہ بھی ممکن ہے یہاں حواری اورحضرت مریم کو غیر مرسل قرار دیا گیا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ انبیاء سے مراد بذاتِ خود انبیاء اور ان کے کبار متبعین ہوں۔ (فتح الباری:/۵۳۲)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب