سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(927) اعمالِ صالحہ پر اتقاء (بھروسہ کرنے کا ) مسئلہ

  • 26042
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 749

سوال

(927) اعمالِ صالحہ پر اتقاء (بھروسہ کرنے کا ) مسئلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کوئی ایسا عمل یا کوئی ایسا طریقہ یا ایسا ذریعہ بتلایے کہ جس سے انسان کا جنت میں جانا یقینی ہوجائے۔ (محمد مسعود آثم) (۳۱ جولائی ۱۹۹۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کتب احادیث میں موجود صبح و شام کے وظائف کااہتمام بالعموم اور سید الاستغفار کا التزام بالخصوص ہونا چاہیے جس کے الفاظ یوں ہیں:

’اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّی لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِی وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَی عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَیَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِی فَاغْفِرْ لِی، فَإِنَّهُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ‘(صحیح البخاری ، بَابُ أَفْضَلِ الِاسْتِغْفَارِ، رقم:۶۳۰۶)

نبیﷺ نے فرمایا جس نے صبح کے وقت یقین سے یہ کلمات کہے اور اس روز وہ شام سے پہلے مرگیا۔ سووہ اہل جنت سے ہے اور جس نے شام کے وقت یقین سے یہ کلمات کہے اور اُسی رات وہ صبح سے پہلے مرگیا سو وہ اہل جنت سے ہے۔‘‘

محض اعمال پر بھروسہ کرکے بیٹھ رہنا مومن کی شان سے بعید ہے۔ رب العزت کی بہشت رجاء اور خوف کے درمیان ہے۔ مسلسل عمل جدوجہد تادمِ مرگ جاری رہنی چاہیے۔

 حدیث میں ہے کہ کوئی شخص صرف نیک عملوں کی وجہ سے جنت میںداخل نہیں ہو سکے گا۔ جب تک اللہ کی رحمت شامل ِ حال نہ ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:

بَابُ خَوْفِ المُؤْمِنِ مِنْ أَنْ یَحْبَطَ عَمَلُهُ وَهُوَ لاَ یَشْعُرُ . وَقَالَ إِبْرَاهِیمُ التَّیْمِیُّ: مَا عَرَضْتُ قَوْلِی عَلَی عَمَلِی إِلَّا خَشِیتُ أَنْ أَکُونَ مُکَذِّبًا وَقَالَ ابْنُ أَبِی مُلَیْکَةَ : أَدْرَکْتُ ثَلاَثِینَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، کُلُّهُمْ یَخَافُ النِّفَاقَ عَلَی نَفْسِهِ، مَا مِنْهُمْ أَحَدٌ یَقُولُ: إِنَّهُ عَلَی إِیمَانِ جِبْرِیلَ وَمِیکَائِیلَ  وَیُذْکَرُ عَنِ الحَسَنِ مَا خَافَهُ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلاَ أَمِنَهُ إِلَّا مُنَافِقٌ ‘

یعنی مومن کا اس بات سے ڈرنا کہ عدمِ شعور میں کہیں اس کے اعمال ضائع نہ ہو جائیں۔ ابراہیم تیمی نے کہا جب میں نے اپنے قول کو عمل پر پیش کیا تو مجھے خوف لاحق ہوا کہیں عمل سے اپنی بات کی خود ہی تو تکذیب نہیں کر رہا اور ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے میں نے تیس صحابہ کو پایا جو سب کے سب اپنی جانوں پر نفاق سے خوف زدہ تھے ان میں سے کوئی بھی یہ بات نہیں کہتا تھا کہ اس کا ایمان جبریل اور میکائیل فرشتوںجیسا ہے حضرت حسن سے بیان کیا جاتا ہے اللہ سے صرف مومن ڈرتا ہے اور منافق اپنے کو اس سے اَمن میں سمجھتا ہے۔

قرآن میں ہے:

﴿وَلِمَن خافَ مَقامَ رَبِّهِ جَنَّتانِ ﴿٤٦﴾... سورة الرحمٰن

﴿ فَلا يَأمَنُ مَكرَ اللَّهِ إِلَّا القَومُ الخـٰسِرونَ ﴿٩٩﴾... سورة الأعراف

بعض سلف فرمایا کرتے تھے کاش مجھے یقین ہو جائے کہ رب نے میری زندگی بھر کی صرف ایک نماز قبول کرلی ہے۔ اس لیے بے فکری کا کبھی نہ سوچیں۔ پیش آمدہ مسافت کے مراحل بڑے پر خطرہیں۔ان سے بچاؤکی سعی و تدبیر ہر لمحہ ہونی چاہیے۔﴿ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ﴾(المائدۃ:۲۷)

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:634

محدث فتویٰ

تبصرے