سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(921) کیا کسی مسلمان کے لیے جانوروں کو خصی کرنا جائز ہے؟

  • 26036
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 957

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(۱) بیل سانڈ بکرے وغیرہ، جو جانور خصّی کیے جاتے ہیں ان کی کیا دلیل ہے۔ مسلم و غیر مسلم دونوں خصی کر سکتے ہیں؟

(۲) کیا کوئی مسلمان بھی یہ کام کر سکتا ہے۔ وضاحت فرمائیں۔ (سائل محمد اسلم گھلوی،مرکزی مسجد اہل حدیث قلعہ دیدار سنگھ، گوجرانوالہ) (۱۳ مارچ، ۱۹۹۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جانوروں کو خصی کرنے کے بارے میں اہل علم کے دو متضاد اقوال ہیں۔ ایک گروہ منع کا قائل ہے جب کہ دوسرا گروہ عملی جواز کا قائل ہے۔

اوّل الذکر طائفہ کے دلائل بالاختصار حسب ذیل ہیں:

۱۔﴿وَلَءامُرَنَّهُم فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلقَ اللَّهِ...﴿١١٩﴾... سورة النساء

’’اور( یہ بھی) کہتا رہوں گا کہ وہ اللہ کی بنائی صورتوں کوبدلتے رہیں۔‘‘

زیر آیت ہذا امام بغوی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’مفسرین کی ایک جماعت بشمول عکرمہ کا کہنا ہے مراد اس سے خصی کرنا۔ گودنا لگانا اور کان کاٹنا ہے۔اور بعض اہل علم نے خصی کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ (معالم التنزیل)

نیز حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’ابن عباس رضی اللہ عنہما  کے نزدیک اس سے مقصود جانوروں کا خصّی کرنا ہے۔ یہی رائے درج ذیل اسلاف کی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما ، انس رضی اللہ عنہ ، سعید بن مسیب رحمہ اللہ ، عکرمہ رحمہ اللہ ، ابو العباس رحمہ اللہ ، قتادہ رحمہ اللہ ، ابو صالح  رحمہ اللہ اور ثوری رحمہ اللہ ۔‘‘

۲۔        حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے ۔ رسولِ اکرمﷺ نے دم گھونٹنے اور جانوروں کو خصی کرنا سختی سے منع فرمایا ہے۔(رواہ البزار) امام شوکانی رحمہ اللہ  نے اس پر صحت کا حکم لگایا ہے۔

۳۔        ابن عمر رضی اللہ عنہما  سے ماثور ہے، رسول اللہﷺ نے اونٹوں، گایوں، بھیڑ بکریوں،ا ور گھوڑوں کے خصّی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں، افزائش نسل کا دارومداراسی پر ہے۔ کوئی بھی مادہ نر کے بغیر اپنے فرائض انجام نہیں دے سکتی۔(شرح معانی الآثار)

۴۔        مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے۔ جانوروں کا خصی کرنا مثلہ کے حکم میں ہے پھر دلیل میں مذکور آیت پیش کی اور ابن عمر رضی اللہ عنہما  نے بھی عدم ِ جواز پر اپنی مروی روایت اور مذکورہ بالا آیت سے استدلال کیا ہے۔

مذکورہ دلائل کا جواب:

ان دلائل کے جواب میں ثانی الذکر فریق کا کہنا ہے کہ﴿فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ﴾ کی تفسیر میں جانوروں کو خصی کرنے کی بات کسی صحیح یا ضعیف روایت سے مرفوعاً ثابت نہیں۔ اور جہاں تک سلف کی ایک جماعت کا تعلق ہے کہ اس نے آیت ﴿فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ﴾ سے خصی کرنا سمجھا ہے جب کہ ان کے بالمقابل دوسری جماعت نے ﴿خَلْقَ اللّٰهِ﴾سے اللہ کا دین مراد لیاہے چنانچہ امام بغوی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما ، حسن بصری، مجاہد ، قتادہ، سعید بن مسیب اور ضحاک  رحمہم اللہ   نے اس کی تفسیر دین اللہ سے کی ہے اور نظیر میں دوسری آیت ﴿لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ﴾پیش کی ہے۔ اور خلق اللہ کا معنی دین اللہ بتایا ہے۔ یعنی حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرانا اور حافظ ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر میں قریباً ایسی ہی وضاحت فرمائی ہے۔

جب آیت کی تفسیرمیں دونوں قسم کے اقوال ہیں تو فیصلہ حتمی اور یقینی نہ ہوا اور اگر سنت ثابتہ سے کوئی بات ثابت ہو تو انکار کی گنجائش نہ تھی۔ جس کا وجود یہاں ناپید ہے اور طحاوی کی روایت کمزور ناقابلِ استدلال ہے۔ اس میں راوی عبد اللہ بن نافع ہے جو محدثین کے نزدیک ضعیف ہے اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں ایک راوی مجہول ہے۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما پرموقوف ہے مرفوع نہیں اگرچہ مسند بزار کی روایت جس کو امام شوکانی رحمہ اللہ  نے صحیح قرار دیا ہے۔ مطلقاً ممانعت پر دالّ ہے خواہ مأکول اللحم جانور ہو یا غیر مأکول اللحم۔ لیکن دیگر مرویات مثلاً ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، عائشہ رضی اللہ عنہا ، ابو رافع رضی اللہ عنہ  جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما  جواز پر مصرح ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے فرمایا: رسول اللہﷺجب قربانی کا ارادہ فرماتے تو بڑے فربہ سینگوں والے سفید خصی کردہ دنبے خریدتے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ،بَابُ أَضَاحِیِّ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،رقم:۳۱۲۲)

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:628

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ