سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(901) کیا مطب کا نام سلفی دواخانہ یا شفاخانہ درست ہے ؟

  • 26016
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 980

سوال

(901) کیا مطب کا نام سلفی دواخانہ یا شفاخانہ درست ہے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک حکیم صاحب اپنے مطب کا نام سلفی شفا خانہ رکھے ہوئے ہیں جب کہ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ سلفی دواخانہ نام ہونا چاہیے۔ سلفی شفاخانہ کہنے میں شرک ہے۔ اور سلفی دواخانہ کہنا درست ہے۔(الماس الماٹری کوٹ غلام محمد میر پوری خاص سندھ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واقعی اصل یہی ہے کہ مطب کا نام سلفی دواخانہ ہونا چاہیے۔ ہاں البتہ اگر بطورِ تفاؤل اس کا نام سلفی شفاخانہ رکھ لیا جائے تو جواز کا پہلو موجود ہے۔ کیونکہ ایک مومن مسلمان کا اعتقاد قطعاً یہ نہیں ہوتا کہ مقامِ ہذا بذاتِہٖ شفاء میں موثر ہے۔ بلکہ اس کا سراسر یہ عقیدہ ہوتاہے کہ شفاء من جانب اللہ ہے۔ اس بناء پر عام مطبوں کے اوپر آویزاں ہوتا ہے۔ ھو الشافی اور بعض مقامات پر یہ آیت بھی لکھی ہوتی ہے: ﴿وَاِِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ﴾(الشعراء:۸۰)

بہر صورت احتیاطی پہلو یہی ہے کہ اس لفظ کو ترک کردیا جائے کیونکہ امام الحنفاء ابراہیم علیہ السلام  نے شفاء کی نسبت کلیۃً اللہ عزوجل کی طرف کی ہے۔ لیکن آیت ہذا میں بیماری کی نسبت انھوں نے اپنی طرف کردی۔ حالانکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو یہ صرف ادب کی بناء پر ہے۔ ورنہ بلاشبہ بیماری بھی اللہ کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں جنات کا قول ہے:

﴿وَأَنّا لا نَدرى أَشَرٌّ أُريدَ بِمَن فِى الأَرضِ أَم أَرادَ بِهِم رَبُّهُم رَشَدًا ﴿١٠﴾... سورة الجن

آیت ہذا میں ارادہ شر کی نسبت مجہول ہے جب کہ اراد خیر کی نسبت بصیغہ معروف ذکر ہوئی ہے۔ یہ بھی محض ادب کے پیش نظر ہے۔( اطباء کی اصطلاح میں دواخانہ پنساری کی دکان یا اسٹور کو کہا جاتا ہے۔ جب کہ شفا خانہ حکیم و طبیب کی دکان وغیرہ کو کہتے ہیں جہاں بیماریوں کی تشخیص اور پھر ان کے لیے دوائیں تجویز کی جاتی ہیں جن کے استعمال پر اللہ سے شفاء کی امید رکھی جاتی ہے۔ عربی میں ہسپتال کو ’’مستشفیٰ‘‘ کہا جاتاہے۔ جس کے معنی ہیں’’شفاء طلب کرنے کی جگہ۔‘‘ (ن۔ح۔ن)

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:612

محدث فتویٰ

تبصرے