سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(897) جسمانی اعضا اور خون کے عطیے کا حکم

  • 26012
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1358

سوال

(897) جسمانی اعضا اور خون کے عطیے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جسم ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے کیا کسی کو خون، گردہ، آنکھ یا جسم کا کوئی بھی حصہ عطیہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر پاس کوئی مرر ہا ہو تو کیااس کو خون دینا چاہیے یا نہیں؟(سائل اصغر محمود) (۷ اکتوبر۱۹۹۴ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بنی نوع انسان کے لیے اپنے جسم میں ایسا تصرف جس سے انسانی زندگی کا ضیاع لازم آتا ہو یہ تو قطعاً ممنوع ہے جیسے خودکشی وغیرہ اور اگر اس کی اصلاح کی خاطر آپریشن کے مراحل سے بھی گزرنا پڑے تو سبھی جواز کے قائل ہیں۔ چاہے بعض زہر آلود عضوؤں کو کاٹ کر ہی اس کی اصلاح کیوں نہ کرنی پڑے بلکہ زندہ کی مصلحت کی خاطر کئی ایک اہل علم مردہ کی چیر پھاڑ کے بھی قائل ہیں۔

چنانچہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ ’’المحلّٰی‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’اگر حاملہ عورت فوت ہو جائے اور اس کے پیٹ میں بچہ حرکت کرتا معلوم ہو جس پر چھ ماہ سے اوپر مدت گزر چکی ہو تو اسے آپریشن کے ذریعہ نکال لیا جائے۔ قرآن میں ہے :’’جس نے ایک جان بچائی گویا اس نے سب لوگوں کی جانیں بچائیں۔‘‘

امام نووی رحمہ اللہ نے ’’المجموع‘‘(۳۰۱/۵) میں اس قول کی تصویب کی ہے اور اسے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  اور اکثرفقہاء کی طرف منسوب کیا ہے لیکن عمل ہذا کو ’’کشاف القناع‘‘ اور ابوداؤد نے اپنے مسائل میں ناجائز قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’سَمِعْتُ اَحْمَدَ سُئِلَ عَنِ الْمَرْأةِ تَمُوْتُ وَالْوَلَدُ یَتَحَرَّكُ فِیْ بَطْنِهَا أ یُشَقُّ  عَنْهَا قَالَ لَا’ کَسْرُ عَظْمِ الْمَیِّتِ کَکَسْرِهِ حَیًّا..‘

یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کی اس حدیث (سنن ابن ماجہ،بَابٌ فِی النَّہْیِ عَنْ کَسْرِ عِظَامِ الْمَیِّتِ ،رقم:۱۶۱۶)، (سنن ابی داؤد،بَابٌ فِی الْحَفَّارِ یَجِدُ الْعَظْمَ ہَلْ یَتَنَکَّبُ ذَلِکَ الْمَکَانَ؟،رقم:۳۲۰۷)کی رو سے پیٹ چاک کرکے بچہ نکالنے کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘

علامہ رشید رضا مصری اس کے حواشی میں رقمطراز ہیں:

’’اس حدیث سے علی الاطلاق ترک جنین پر استدلال جائز نہیں ہے کیونکہ حدیث کا مقصد میت کی لاش کو بے حرمتی سے بچانا ہے یعنی لاش کی بے حرمتی کے لیے ہڈی وغیرہ توڑنا(مثلہ کرنا) حرام ہے۔ اور عملی جراحی بے حرمتی کے تحت نہیں آتا اورپھر بعض اوقات وہ بچہ زندہ بھی رہتا ہے۔ لہٰذا یہ طبی عمل بلاشبہ جائز ہے۔‘‘

اسی طرح زندہ آدمی کی مصلحت کے پیش نظر سوال میں مذکورہ اشیاء کی منتقلی کا بھی جواز ممکن ہے۔ بشرطیکہ ان سے استفادہ کا ظن غالب ہو۔ سعودی عرب کی ہیئت کبارالعلماء (علماء کی سپریم کونسل ) نے بھی اکثریت سے مردہ کے اعضاء کی منتقلی کے جواز کا فتویٰ صادر کیا ہے۔ (قرار رقم ۶۲ ، تاریخ ۲۵/۱۰/۱۳۹۸ھ، مجلۃ البحوث الاسلامیۃ، عدد:۱۴، ص:۶۷۔۶۸)

نص کلمات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔

’’ مطالعہ، بحث وتمحیص اور باہمی تبادلہ خیالات کے بعد علماء کے اجلاس میں اکثریت کے ذریعے درج ذیل فتوے طے پایا،

نمبر۱ : کسی انسان کی موت کا تعین ہو جانے کے بعد اس کی آنکھ کے ڈھیلے کو منتقل کرکے کسی ایسے مسلمان کی آنکھ میں پیوند کرنا جائز ہے جو مجبور ہو اور پیوند کاری کے اپریشن کی کامیابی کے بارے میں ظن غالب ہو ،بشرطیکہ میت کے ورثاء کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ اس کی اجازت اس قاعدے کی رُو سے اس پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ اس کی اجازت اس قاعدے کی رُو سے ہے جس میں دو مصلحتوں میں سے بہترین مصلحت کے حصول کو مد نظر رکھنے اور مضرت رساں چیزوں میں سے کمتر ضرر والی کو اختیار کرکے اور زندہ انسان کی مصلحت کو مردہ شخص کی مصلحت پر مقدم کرنے کا تحقق پایا جاتا ہے ، کیونکہ اس عمل میں یہ امید پائی جاتی ہے کہ زندہ شخص میں دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی جب کہ پہلے اس میں یہ صلاحیت مفقود تھی۔ اس سے نہ صرف یہ کہ وہ شخص خود استفادہ کر سکے گا۔ بلکہ اس میںپوری امت کو فائدہ پہنچنے کا امکان موجود ہے۔ اور جس مردہ شخص سے یہ آنکھ لی گئی ہو اس کے (بدن) میں کوئی کمی بھی واقع نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس کی آنکھ نے بالآخر مٹی کے ساتھ مٹی ہو کر برباد ہو جانا ہے اور آنکھ کو منتقل کرنے کے عمل میں بظاہر کوئی مثلہ( قطع وبرد) بھی نہیں پایا جاتا کیونکہ اس کی آنکھ بند ہو چکی ہے اور اس کے دونوں پپوٹے اوپر تلے مل گئے ہیں۔

نمبر۲: جس انسان کی آنکھ کے بارے میں طبی رپورٹ کی رُو سے یہ طے کیا گیا ہو کہ اس کا باقی رکھنا خطرے کا باعث ہے تو ایسی آنکھ کے صحیح و سالم ڈھیلے کا انتقال اور اسے کسی دیگر مجبور انسان کی آنکھ میں پیوند کرنا جائز ہے کیونکہ دراصل اس آنکھ کو اس سے نکالا گیا ہے تاکہ اس آنکھ والے شخص کی صحت کی حفاظت کی جا سکے۔ چنانچہ ایسے ڈھیلے کو منتقل کرنا اور کسی دیگر شخص کی مصلحت کی خاطر اس کی آنکھ میں پیوند کرنا مذکور شخص کے لیے قطعاً نقصان دہ نہیں۔ چنانچہ شریعت اور انسانیت اسی بات کی متقاضی ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق دینے والا ہے۔

وَصَلَّی اللّٰهُ عَلٰی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَ اٰلِهٖ وَ صَحْبِهٖ وَ سَلَّمَ۔  (نامور علماء کی کمیٹی)

(بورڈ آف دی گریٹ سکالرز)

آنکھ پر دیگر انسانی اعضاء کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔ نیز خون وغیرہ دینے کا معاملہ نسبتاً سہل ہے۔ لہٰذا یہ بطریقِ اولیٰ جائز ہے۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:609

محدث فتویٰ

تبصرے