سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(893) کسی کو بدنام کرنے کے لیے جاسوسی کرنا

  • 26008
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2258

سوال

(893) کسی کو بدنام کرنے کے لیے جاسوسی کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی کی اس لیے جاسوسی کرنا کہ اُسے بدنام کیا جائے یا رسوا کیا جائے، جائز ہے؟ (سائل محمد اکرم شیخ دوکاندار) (۶ مارچ ۱۹۹۲)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اس قسم کے امر کو کتاب وسنت کی متعدد نصوص میں حرام قرار دیا گیا ہے ۔ مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اجتَنِبوا كَثيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعضَ الظَّنِّ إِثمٌ وَلا تَجَسَّسوا وَلا يَغتَب بَعضُكُم بَعضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُم أَن يَأكُلَ لَحمَ أَخيهِ مَيتًا فَكَرِهتُموهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوّابٌ رَحيمٌ ﴿١٢﴾... سورة الحجرات

’’ اے اہل ایمان بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے( تو غیبت نہ کرو) اور اللہ کا ڈر رکھو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘

اور حدیث میں ہے:

’ عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الحَدِیثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَنَاجَشُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَکُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا وَ فِی رِوَایَةٍ وَ لَا تَنَافَسُوْا ‘(متفق علیه بحواله مشکوٰة، باب ما ینهی عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات ، صحیح البخاری،بَابُ ﴿یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیرًا …الخ﴾،رقم:۶۰۶۶

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا بدگمانی سے بچو۔ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے اور نہ معلوم کرو خبر اور نہ جاسوسی کرو اور بلا ارادہ خرید کے چیز کے بھاؤ کو مت بڑھاؤ اور نہ آپس میں حسد کرو اور نہ آپس میں بُغض رکھو اور نہ آپس میں غیبت کرو اور سبھی اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے: اور نہ حرص کرو۔‘‘(بخاری و مسلم)

نیز فرمایا: دو شخصوں کے درمیان برائی ڈالنے سے بچو، یہ شئے دین کو تباہ کرنے والی ہے۔(ترمذی)

اور ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے منبر پر ارشاد فرمایا:

’یَا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ یُفْضِ الإِیمَانُ إِلَی قَلْبِهِ، لاَ تُؤْذُوا الْمُسْلِمِینَ وَلاَ تُعَیِّرُوهُمْ وَلاَ تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ، فَإِنَّهُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِیهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ، وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ یَفْضَحْهُ وَلَوْ فِی جَوْفِ رَحْلِهِ ‘(سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی تَعْظِیمِ الْمُؤْمِنِ،رقم:۲۰۳۲)

’’اے گروہ لوگوں کے جو اسلام لایا ہے اپنی زبان کے ساتھ اور نہیں پہنچا ایمان اس کے دل میں نہ ایذا دو تم مسلمانوںکو اور نہ عار دلاؤ ان کو اور نہ تلاش کرو عیب اُن کے۔ پس تحقیق جو شخص کہ ڈھونڈے عیب اپنے بھائی مسلمان کا، ڈھونڈے گا اللہ تعالیٰ عیب اس کا اور جس کا اللہ نے عیب ڈھونڈھا وہ اس کو رسوا کردیگا اگرچہ وہ اپنی سواری کے کجاوے میں ہو۔‘‘

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:604

محدث فتویٰ

 

تبصرے