السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں مفتیان شرح متین کہ آغا خانی دیہی ترقیاتی تنظیموں کی رکنیت اختیار کرکے ترقیاتی فنڈ حاصل کرنا کتاب و سنت کی رُو سے جائز ہے یا حرام جب کہ صورت حال یہ ہے:
٭ شمالی علاقہ جات اور چترال میں آغا خان فاؤنڈیشن اور آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے تحت رفاہی اور فلاحی منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں، جس سے اقتصادی طور پر عوام کو فائدہ ہو رہا ہے۔
٭ شمالی علاقہ جات کے غریب عوام کے نام پر مغربی ممالک آغا خانی تنظیموں کے ذریعے بے تحاشا فنڈ دیتے ہیں، جب کہ ان سے غریب تر لوگ بلوچستان، سندھ وغیرہ میں بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں، ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
٭ حکومت پاکستان بھی جس قدر اسلام پسند رفاہی تنظیموں کا ناطقہ بند کر رہی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ مگر مغرب نواز این جی اوز کو ہر قسم کی چھوٹ دے رہی ہے، بلکہ عوام الناس کو ان اداروں کے آگے جھکنے پر مجبور بنانے اور ان کا احسان مند کرنے کے لیے بہت سے سرکاری فنڈ بھی آغا خانی تنظیم کے ذریعے فراہم کرتی ہے، جن میں سردست بیت المال کی طرف سے گرلز سکولوں میں دوپہر کا کھانا بھی شامل ہے۔
٭ آغاخانی اسماعیلی مذہب باطنی عقائد کا حامل ہے۔ ان کی تاریخ عہد فاطمی سے لے کر حسن بن الصباح، سقوط بغداد ، صلاح الدین ایوبی کے خلاف سازشیں، سب اہل علم پر عیاں ہے۔
٭ ماہنامہ تکبیر وغیرہ میں اسماعیلیوں کے موجودہ سیاسی عزائم اور علیحدگی پسند تحریک سے متعلق تفصیلات آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان رفاہی خدمات کے پس پردہ یہاں کے اہم ترین جغرافیائی خطوں پر مشتمل آغا خانی ریاست قائم کرنے کے منصوبے پر گامزن ہیں۔ حتی کہ جانباز فورس کے نام پر وہ اپنی الگ مسلح فوج بھی بنا رہے ہیں اور حکومت پاکستان بھی بین الاقوامی سازشوں کے زیر اثر ان کا دست و بازو بنی ہوئی ہے۔
٭ آغا خانی تنظیم سے منصوبہ طلب کرنے کے لیے شرط یہ ہے کہ متعلقہ علاقے میں آغا خان کے نام پر دیہی ترقیاتی تنظیم بنائی جائے۔ اس کے ارکان تھوڑی سی رقم بطورِ فیس جمع کرکے تنظیم کے نام پر بینک میںجمع کرتے ہیں جو فکس ڈیپازٹ میں رکھی جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سود حاصل ہو۔
٭ جب بعض لوگ اس فیس کو آغا خانی عقیدے کے مطابق مالِ امام یا مذہبی نذرانہ تصور کرکے رقم دینے سے کترانے لگے توانھوں نے نظام میں تبدیلی کی۔ اب تنظیم سازی کے لیے ممبروں سے فیس نہیں لی جاتی، پھر منظور شدہ فنڈ میںسے ان کے قاعدے کے مطابق رقم کاٹ کر تنظیم کے اکاؤنٹ میں جمع کی جاتی ہے۔
٭ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے مرد و زن ملازمین کو مختلف امور کے سلسلے میں کئی کئی دنوں تک مختلف علاقوں میں ٹھہرنا ہوتا ہے۔ جس کے دوران بے پردگی اور اختلاط سے معاشرے میں فحاشی و عریانی پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔(محمد یعقوب، سکردو، بلتستان) (۲۸ مئی ۲۰۰۴ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
استعمار کی پروردہ، الحاد اور بے دینی کی علمبردار آغا خانی تنظیموں سے تعاون حاصل کرنا حرام ہے، کیونکہ یہ لوگ سراسر جہنم کے داعی ہیں۔ ’وَهُمْ دُعَاةٌ عَلٰی اَبْوَابِ جَهَنَّم‘ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دنیا کی عارضی مشکلات اور تکالیف پر صبر کریں۔
دوسری طرف اہل خیر مسلمانوںکا فرض ہے کہ وہ اس قسم کے پسماندہ علاقوں میں اپنے مسلمان بھائیوں کی ضروریات کا خیال رکھیں اور مشکلات کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔ ارشادِ ربانی ہے:
﴿وَالَّذينَ كَفَروا بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ إِلّا تَفعَلوهُ تَكُن فِتنَةٌ فِى الأَرضِ وَفَسادٌ كَبيرٌ ﴿٧٣﴾... سورة الأنفال
’’کافر آپس میں ایک دوسرے کے معاون ہیں، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں فتنہ ہوگا اور بہت بڑا فساد برپا ہو جائے گا۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب