سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(858) کیا یہ بات کہاں تک درست ہے ؟ ’’کہ سیدنا ایوب علیہ السلام کے جسم میں کیڑے تھے‘‘

  • 25973
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1917

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضرت ایوب علیہ السلام بیمار ہوئے تو اس کی نوعیت کیا تھی؟ کیا یہ صحیح ہے کہ ان کے سارے جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے۔ اگر کوئی کیڑا نیچے گر جاتا تو اسے اٹھا کر اپنے جسم سے چپکا لیتے کہ تیری غذا تو اللہ نے میرے جسم میں رکھی ہے اور کیا سارا جسم خراب ہو گیا تھا؟ اس کا کیا ثبوت ہے ؟ اگر معمولی نوعیت کی بیماری تھی تو ایوب صابر کی شہرت کس بنا پر ہے؟ (سائل) (۱۲ جنوری ۲۰۰۱ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید کے بیان سے واضح ہے کہ ایوب علیہ السلام کسی شدید ترین بیماری میں مبتلا تھے۔ بائبل کا بیان بھی یہی ہے کہ سر سے پاؤں تک ان کا سارا جسم پھوڑوں سے بھر گیا تھا۔ تفسیر ابن کثیر اور تفسیر خازن وغیرہ میں سوال میں مشارٌ الیہ بیان کی طرف اشارات موجود ہیں مگر نبیﷺ سے مستند کوئی شئے وارد نہیں تاہم بالاجمال صحیح حدیث میں ہے۔

’اَشَدَّ النَّاسُ بَلَاءً الْاَنْبِیَاءُ‘

’’لوگوں میں سب سے شدید ترین آزمائشیں انبیاء علیہ السلام پر آتی ہیں۔‘‘

بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ایسی بیماری جس سے لوگ نفرت کا اظہار کریں نبوت کے منافی ہے مثلاً پھوڑے نکل آنا، قوتِ سمع و بصر کا متاثر ہوجانا ،وغیرہ چونکہ انبیاء کی حیثیت راہنما کی ہے۔ دعوت و تبلیغ کی خاطر عوام سے میل جول کی ضرورت ہے۔ نبی کو نفرت آمیز امراض لاحق ہوں تو کون اس کے قریب آئے گا۔ ایسی حالت میں کما حقہ واجبات ادا نہیں کر کتا۔ اس لیے رسولوں کے لیے ضروری ہے کہ بہترین حالت اور خوبصورت ترین ہیئت میں ہوں البتہ بتقاضائے بشریت امراض کا لاحق ہونا درست ہے بشرطیکہ متنفر کرنے والے نہ ہوں۔ (تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام الرحمن ھامش(۲۵۳/۵)

میرے خیال میں مذکورہ وجوہ میں سے بعض محل نظر ہیں۔ کہ اللہ رب العزت مختارِ کل ہے وہ جیسے چاہے بندوں کی آزمائش کرے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں:﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَهُمْ یُسْئَلُوْنَ﴾ (الانبیاء:۲۳)

حضرت یعقوب علیہ السلام کی بصارت ضائع ہونے کا قصہ تو قرآن میں موجود ہے تو پھر انکار کیسا ؟ بہر صورت سیدنا ایوب علیہ السلام  کی بیماری معمولی نوعیت کی نہیں تھی بلکہ وہ سخت تھی اسی وجہ سے تو قرآن نے ان کا لقب صابر رکھا ہے۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:585

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ