امام نے جماعت کرائی نماز ختم کرنے کے بعد اس کو خیال آیا کہ اس نے بے وضو نماز پڑھائی ہے ایسی صورت میں مقتدیوں کی نماز ہوئی یا نہیں صرف امام نماز دہرائے یا مقتدی بھی؟
اس مسئلہ میں ائمہ مختلف ہیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ و امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ و امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مقتدیوں کی نماز صحیح ہو گئی ان کو نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں۔ صرف امام کی نماز باطل ہوئی اس لیے فقط وہی نماز دہرائے۔ یہ تینوں امام اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔
عن ابی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلون لکم فان اصابوا فلکم ولھم وان اخطئوا فلکم وعلیھم (احمد و بخاری) قال فی المنتقی وقد صح عن عمرانہ صلی بالناس وھو جنب ولم یعلم فاما دولم یعیدو او کذلک عثمان وروی عن علی من قولہ رضی اللّٰہ عنہ انتہیٰ قال الحافظ وفی روایة لاحمد فان اصابوا الصلوٰة لوقتہا واتموا الرکوع والسجود فہی لکم ولھم فہذا یبین ان المراد ما ھوا اعم من اصابة الوقت قال ابن المنذر ھذا الحدیث یرد علی من زعم ان صلوٰة الامام اذا فسدت فسدت صلوة من خلفہ قال الشوکانی قولہ وان اخطئوا ای ارتکبوا الخطیئة ولم یرد الخطاء المقابل للعمد لانہ لا اثم فیہ واستدل بہ البغوی علی انہ یصح صلوة المامومین اذا کان امامھم محدثا وعلیہ الاعادة قال فی الفتح واستدل بہ غیرہ علی اعم من ذلک وھو صحة الائتمام بن یخل بشئی من الصلٰوة وکنا کان او غیرہ اذا اتم الماموم وھو وجہ للشافعیة بشرط ان یکون الامام الخلیفة او نائبہ والاصح عند ھم صحہ الاقتداء الا لمن علم انہ ترک واجبا و منھم من استدل بہ علی الجواز مطلقاً قال الشوکانی وھو الظاہر عن الحدیث و یؤیدہ ما رواہ المصنف عن الثلاثة الخلفاء رضی اللہ عنہ انتہیٰ (نیل الاوطار ج ۳ ص ۵۳)
اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام اور مقتدی دونوں کی نماز باطل ہو گئی دونوں کو نماز دہرانی چاہیے دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں۔
«الامام ضامن الموذن موتمن» (احمد ابو داؤد ترمذی، ابن حبان ابن خزیمہ حاکم عن ابی ھریرۃ)
میرے نزدیک ائمہ ثلثہ کا مسلک راجح اور قوی ہے۔ (محدث دہلی جلد نمبر ۸ شمارہ نمبر ۸)