سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(851) قرآنی آیت کی تفسیر میں وارد اشکال کا جواب

  • 25966
  • تاریخ اشاعت : 2024-09-17
  • مشاہدات : 849

سوال

(851) قرآنی آیت کی تفسیر میں وارد اشکال کا جواب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم جناب حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب۔

عرض ہے بندہ آپ کے فتاویٰ جات مختلف مجلات میں عرصہ دراز سے بڑے اشتیاق کے ساتھ پڑھتا ہے۔ میں عموماً آپ کے فتوے کو ترجیحی نگاہ سے اس لیے دیکھتا ہوں کہ فتویٰ مدلل ہوتا ہے جب کہ یہ خاصیت باقی مفتیان میں مفقود ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں برکت نصیب فرمائے۔(آمین)

میں عرصہ دراز سے چند الجھنوں میں گرفتار ہں۔ امید ہے آپ تسلی بخش رہنمائی فرما کر مشکور ہوں گے۔ سب سے اہم مسئلہ بخاری شریف میں وارد بعض روایات ہیں جو کہ عجیب خلجان پیدا کردیتی ہیں۔ مثلاً کتاب التفسیر میں موجود عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کا ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ ﴾ (الحج:۵۲) کے ساتھ «وَلاَ مُحَدَّثٍ» کا اضافہ اس روایت کو پڑھ کر چند اشکالات ذہن میں ابھرتے ہیں کہ موجودہ قرآن مجید مکمل نہیں؟

اگر مکمل ہے تو پھر یہ روایت ایک صحابی کی ایسی جرأت واضح کرتی ہے جو کہ ان کی شان کے یکسر منافی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ قراءت کا اختلاف ہے تو میرے خیال میں درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس قراء ت میں نبی رسول کے علاوہ ایک اور منصب کاتذکرہ ہے جو کہ تیسرا منصب بیان ہوا ہے یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک قراء ت میں دو منصب بیان ہوئے۔ تیسرا منصب جو کہ ان مناصب ِ مذکورہ سے بالکل جدا ہے وہ مذکور نہیں ہے۔

۱۔         بہرحال یہ ایک قول ہے جو کہ اللہ کے رسول کابھی نہیں ہے۔

۲۔        اس سے قرآن کا موجودہ صورت میں اُن الفاظ پر نہ ہونا۔ خود شک کا باعث ہے۔ اس قسم کی روایات کو محض اس بناء پر اقبول کرنا کہ بخاری میں ذکر ہیں یہ انکارِ حدیث کے راہیں ہموار کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اور قرآن پر لب کشائی کا موقع دینا بھی ہے۔ امید ہے اس پر آپ غور کرکے اپنی مجتہدانہ رائے دے کر تحقیق کا ایک راستہ کھولیں گے یا اس کے بارے میں جو صحیح تحقیق ہو جو ہم تک نہ پہنچ سکی فراہم کریں گے۔ جزاکم اللہ ۔ (ابو أواب جامعہ کراچی) (۲۰ اگست ۱۹۹۹ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

’’صحیح بخاری‘‘کتاب التفسیر ’’سورۃ الحج‘‘ کے شروع میںیہ قول حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے بایں الفاظ مروی ہے:’إِذَا حَدَّثَ أَلْقَی الشَّیْطَانُ فِی حَدِیثِهِ‘صحیح البخاری،بَابُ ﴿کَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُهُ وَعْدًا عَلَیْنَا﴾ (الأنبیاء :۱۰۴)،سورۃ الحج "لیکن اس میں قرآنی آیت ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ﴾(الحج:۵۲) کا اضافہ نہیں جس طرح کہ سوال میں مصرح ہے۔ اکثر مفسرین کا قول یہ ہے کہ لفظ تمنی کا معنی قرأ اور تلا ہے۔ یعنی پڑھا اور تلاوت کی۔

اس امر کی وضاحت یوں ہے کہ شیطان رسول یا نبی کی قراء ت میں شکوک و شبہات ڈالنے کی سعی کرتاہ تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو نبی کی پیروی سے روک سکے۔

اس کا یہ مفہوم ہر گز نہیں کہ اس طرح قرآن کے الفاظ ہیں افراط و تفریط واقع ہو جاتی ہوجب کہ حفاظت کی ذمہ داری تو خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔ اسی بناء پر بعد میں فرمایا:

﴿فَيَنسَخُ اللَّهُ ما يُلقِى الشَّيطـٰنُ ثُمَّ يُحكِمُ اللَّهُ ءايـٰتِهِ وَاللَّهُ عَليمٌ حَكيمٌ ﴿٥٢﴾... سورة الحج

’’تو جو (وسوسہ) شیطان ڈالتا ہے اللہ اس کودور کردیتا ہے۔ پھر اللہ اپنی آیتوں کو مضبوط کردیتا ہے اور اللہ علم والا اور حکمت والا ہے۔‘‘

واضح ہو کہ اس مقام پر ایک واقعہ قصہ الغرانیق کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ قصہ ناقابلِ اعتماد ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے نصب المجانیق فی قصۃ الغرانیق کتاب لکھ کربدلائل قویہ اس کا بطلان ثابت کیا ہے۔ جس سے حقیقت ِ حال منکشف ہو جاتی ہے۔ شائقین کے لیے ایک نادر تحفہ ہے جس کا مطالعہ ضروری ہے۔ سائل نے پھر بعد میں لَب کشائی کی ہے میرے خیال میں تو اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ اشکال کی صورت میں پہلے اپنی بساط کے مطابق خود حل کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔ بصورتِ دیگر محققین اہل علم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ قرآن میں ہے:

﴿فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ ﴿٤٣﴾... سورة النحل

’’اور حدیث میں ہے:

’اِنَّمَا شِفَاءَ الْغَیِّ السُّؤَال ‘(السنن الکبرٰی للبیهقی،بَابُ الْمَسْحِ عَلَی الْعَصَائِبِ وَالْجَبَائِرِ،رقم:)۱۰۷۷

مسئلہ کو مزید سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو ہمارے شیخ محمد الامین کی تفسیر’’اضواء البیان:۷۲۷/۵ تا ۷۳۴)

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:576

محدث فتویٰ

تبصرے