السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
’’سورۃ السجدہ‘‘(۳۲:۱۱) میں ’ مَلَکُ الْمَوْت‘ کا ذکر ہے ، اسی طرح ’’مسند احمد‘‘ میں حدیث براء اور ’’صحیح مسلم‘‘ میں فضائل موسیٰ علیہ السلام میں بھی ’مَلَک‘ کا تذکرہ ہے۔ بعض مفسرین نے ان کا نام عزرائیل نقل کیا ہے۔ کیا صحیح حدیث سے ملک الموت کا نام ’’عزرائیل‘‘ ثابت ہے ؟ یا صرف ملک الموت ہی کہنا چاہیے؟(محمد صدیق ، ملتان) (۱ فروری ۲۰۰۲ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
: ’’ملک الموت‘‘کا نام صحیح مرفوع متصل حدیث سے عزرائیل ثابت نہیں۔ البتہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ (۵۹۹/۳) میں فرماتے ہیں:
’الظَّاهِرُ مِنْ هَذِهِ الْآیَةِ أَنَّ مَلَكَ الْمَوْتِ شَخْصٌ مُعَیَّنٌ مِنَ الْمَلَائِکَةِ، کَمَا هُوَ الْمُتَبَادِرُ مِنْ حَدِیثِ الْبَرَاء ِ الْمُتَقَدِّمِ ذِکْرُهُ فِی سُورَةِ إِبْرَاهِیمَ، وَقَدْ سُمِّیَ فِی بَعْضِ الْآثَارِ بِعِزْرَائِیلَ وَهُوَ الْمَشْهُورُ، قَالَهُ قَتَادَةُ وَغَیْرُ وَاحِدٍ وَلَهُ أَعْوَانٌ۔‘
’’اس آیت سے ظاہر ہے کہ ملک الموت فرشتوں میں سے کسی معین شخص کا نام ہے۔ جس طرح کہ حدیث براء سے متبادر(ظاہر ) ہے، جو ’’سورۂ ابراہیم‘‘ میں گزر چکی ہے۔ تاہم بعض آثار میں اس کا نام عزرائیل مشہور ہے جس طرح کہ قتادہ اور دیگر کئی ایک اہل علم نے بیان کیا ہے اور اس قول کے معاون مؤید بھی ہیں۔‘‘
وَلَهٗ اَعْوَانٌ(تصحیح و اعتذار) …’’الاعتصام‘‘ کی گزشتہ اشاعت(۱ تا ۷ فروری ۲۰۰۲ء) کے ’’احکام و مسائل‘‘ کے کالم میں صفحہ ۸ پر سوال نمبر ۲ کے جواب میں ’’وَلَہٗ اَعْوَانٌ‘‘ کا ترجمہ ’’ اور اس قول کے معاون و مدٔید بھی ہیں۔‘‘ شائع ہوا ہے جو غلط ہے اور یہ غلطی ان سطور کے راقم کے فہم ِ غلط کا نتیجہ ہے۔ استاذ گرامی حضرت مفتی صاحب نے اس کا ترجمہ یوں کیا تھا’’ اور اس کے معاون بھی ہیں۔‘‘ یعنی اس فرشتے(ملک الموت) کے مدد گار بھی ہیں۔ یہی بعد والا ترجمہ صحیح ہے، قارئین اپنے اپنے نسخوں میں تصحیح فرمالیں۔(حافظ عبدالوحید)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب