السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے لیے جمع کا لفظ یعنی نَحْنُ استعمال کیا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ جب کہ علمائے لغت کے مطابق قدیم عربی زبان میں واحد کے لیے جمع کا لفظ استعمال نہیں ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ہم کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے جب کہ اللہ واحد ہے؟ (سائل)( ۲۰ ۔اپریل۲۰۰۷ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاشبہ اللہ اکیلا ہے، معبود برحق ہے لیکن بعض دفعہ اپنے لیے صیغہ جمع حاکمیت اور اظہار قدرت وغیرہ کے لیے استعمال فرماتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَهُمْ یُسْئَلُوْنَ﴾ (الانبیاء: ۲۳)
’’وہ جو کام کرتا ہے اُس کی پرسش نہیں ہوگی اور جو کام لوگ کرتے ہیں اس کی ان سے پرسش ہوگی۔‘‘
بندوں کو حتی المقدور اللہ کے لیے جمع کے صیغے استعمال کرنے سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ توحیدی پہلو میں فرق نہ آئے۔ چناں چہ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں پوری نماز میں نبی ﷺ کی دعائیں لفظ واحد سے ہیں جیسا کہ دعا ’ رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاھْدِنِیْ ۔‘ اور دعائے استفتاح ’ اَللّٰهُمَّ اغْسِلْنِیْ مِنْ خَطَایَایَ …۔‘ ہے۔ (زاد المعاد: ۱/ ۲۶۳، ۲۶۴)
جہاں تک بندوں کا آپس میں بات چیت کا تعلق ہے تو اس میں صیغہ جمع کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ لفظ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَعَلَیْکُمُ السَّلَام اس امر کی واضح دلیل ہے۔ مخاطب چاہے ایک ہو یا زیادہ صیغۂ جمع کا سب پر اطلاق ہے۔ ملاحظہ ہو :مشکوٰة المصابیح (۳/ ۱۳۱۸، طبع مکتب اسلامی) لہٰذا قدیم عربی زبان کا حوالہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا، شرعی دلیل سب سے محکم ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب