سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(819) مساجد میں خود ساختہ طریقوں سے ذکر کی محافل کے انعقاد کا حکم؟

  • 25934
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 508

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بہت سی مسجدوں میں ذکر کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں، جن میں خود ساختہ طریقوں سے ذکر الٰہی کا اہتمام اور بعض الفاظ کا مخصوص انداز میں وِرد کرایا جاتا ہے ۔ کیا احادیث میں ان کا کوئی ثبوت ملتا ہے ؟( ایک سائل لاہور)(۲۸ جنوری ۱۹۹۴ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاریب اللہ کی یاد اور اُس کا ذکر ہر مومن کا مطلوب اور حرزِ جان ہے ۔ لیکن اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی اور مخصوص ہیئت اجتماعی اور خاص انداز میں ذکر مُقَطَّع کا شریعت ِ مطہرہ میں کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ جس طرح کہ مشارٌ الیہ قوم کے ہاں مروّج ہے۔ یاد رہے جو شئے عہدِ نبوت میں دین تھی وہ آج بھی دین ہے اور جو اس وقت دین نہیں تھی وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی، چاہے اس کے اثبات کے لیے سو جتن کیے جائیں۔ (قالہ الامام مالک)

اسی بناء پر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  نے مسجد میں جمے ہوئے حلقۂ ذکر جہاں سو سو دفعہ تسبیحات اور تکبیرات کا وِرد کرایا جا رہا تھا، تند و تیز لہجہ میں فرمایا:

’یَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، مَا أَسْرَعَ هَلَکَتَکُمْ هَؤُلَاء ِ صَحَابَةُ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ، وَهَذِهِ ثِیَابُهُ لَمْ تَبْلَ، وَآنِیَتُهُ لَمْ تُکْسَرْ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، إِنَّکُمْ لَعَلَی مِلَّةٍ هِیَ أَهْدَی مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ. قَالُوا: وَاللَّهِ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَیْرَ. قَالَ: وَکَمْ مِنْ مُرِیدٍ لِلْخَیْرِ لَنْ یُصِیبَهُ‘(سنن الدارمی،بَابٌ فِی کَرَاهِیَةِ أَخْذِ الرَّأْیِ،رقم:۲۱۰، (۶۸/۱) باسناد صحیح)

’’یعنی اے امت محمدیہ! تمھیں کیا ہو گیا کس قدر جلدی بربادہو رہے ہو۔ ابھی ت نبی اکرمﷺ کے اصحاب تم میں بکثرت موجود ہیں اور یہ آپﷺ کے کپڑے بوسیدہ نہیںہوئے اور برتن ٹوٹنے نہیں پائے مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ کیا تمہار امسلک زیادہ ہدایت والا ہے یا محمدﷺ کا دین یا کیا تم گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو؟ لوگوں نے کہا: ابوعبدالرحمن ہمارا ارادہ تو محض خیر ہے ۔ جواباً فرمایا کتنے ہی وہ لوگ ہیں جو خیر کو چاہتے ہوئے بھی اس سے محروم رہتے ہیں۔‘‘

لہٰذا ماثورہ ادعیہ کے ساتھ یادِ الٰہی کی کیفیت وہی ہونی چاہیے جس کی تصریح کتاب ھدی میں بایں الفاظ موجود ہے: ﴿اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰهَ قِیَامًا وَ قَعُوْدًا وَ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ …﴾(آل عمران:۱۹۱)

’’جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہرحال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں۔‘‘

یہاں یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ بعض روایات میں وارد ہے :

’مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا یَذْکُرُونَ اللَّهَ فِیهِ إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلَائِکَةُ، وَتَغَشَّتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَتَنَزَّلَتْ عَلَیْهِمُ السَّکِینَةُ، وَذَکَرَهُمُ اللَّهُ فِیمَنْ عِنْدَهُ۔‘ (سنن ابن ماجه،بَابُ فَضْلِ الذِّکْرِ،رقم:۳۷۹۱)

’’یعنی جب کوئی قوم کسی مجلس میں اللہ کا ذکر کرتی ہے تو فرشتے ان کا احاطہ کر لیتے ہیں اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر تسلی نازل ہوتی ہے۔ اور ان کا ذکر خیر جو اللہ کے پاس ( ملائکہ) ہیں ان میں ہوتا ہے۔‘‘

اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی تفسیر ’’صحیح مسلم ‘‘کی حدیث میں یوں ہے:

’وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِی بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللهِ، یَتْلُونَ کِتَابَ اللهِ، وَیَتَدَارَسُونَهُ بَیْنَهُمْ، إِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْهِمِ السَّکِینَةُ، وَغَشِیَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِکَةُ، وَذَکَرَهُمُ اللهُ فِیمَنْ عِنْدَهُ، وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ یُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ‘(صحیح مسلم،بَابُ فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَی تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَی الذِّکْرِ،رقم:۲۶۹۹)

’’یعنی جب کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر یعنی مسجد وغیرہ میں جمع ہو کر آپس میں کتاب اللہ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے۔ اور اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے گھیر لیتے ہیں اور ان کا تذکرہ جو اللہ کے پاس ہیں ان میں ہوتا ہے۔‘‘

صاحب ’’المرعاۃ ‘‘’فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللّٰهِ‘ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’هُوَ شَامِلٌ لِجَمِیْع مَا یُبْنٰی لِلّٰهِ تقَرّبا اِلَیْهِ مِنَ الْمَسَاجِدِ وَالْمَدَارِسِ وَالرّبَاط‘(۱۸۴/۱)

’’یعنی لفظ حدیث ’’اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں‘‘ یہ لفظ شامل ہے تمام ان چیزوں کو جن کی تعمیر اللہ کے تقرب کے لیے ہوئی ہے۔ مثلاً مساجد، مدارس اور رباط یعنی فقراء کے لیے دینی وقف گاہیں وغیرہ۔‘‘

اس سے معلوم ہوا ان احادیث کے مصداق وہ پاکباز لوگ ہیں جو ہمہ تن کتاب و سنت کی اشاعت میں مصروفِ کار رہتے ہیں نہ کہ اہل بدعت جو اپنی طرف سے محافل ِ ذکر کا اختراع کرکے رسول الثقلین کے ذمے تھوپتے ہیں۔

دوسرے بات یہ ہے کہ پہلی حدیث میں سابقہ پروگرام کے تحت کسی خاص محفل کے انعقاد کا ذکر نہیں ہے بلکہ مقصود یہاں اتفاقی مجلس ہے جو عام طورپر مساجد میں جمتی رہتی ہے قطع نظر ذکری اجتماعی قیادت کے ہر ایک اپنی بساط کے مطابق انفرادی طور پر ذکر میں مصروف رہتا ہے۔ یہ بھی مجلس کے صورت ہی ہے۔

اور جہاں تک اس محفل سے آپ کے محظوظ ہونے کا تعلق ہے سو اس بارے میں عرض ہے بدعت کا یہ خاصہ ہے کہ ہمیشہ اس میں تحسینی پہلو غالب نظر آتا ہے جب کہ رسولِ اکرمﷺ کا فرمان ہے:

’ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:۲۶۹۷)

’’ یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘

’ اَللّٰهُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَهُ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارزْقُنَا اجْتِنَابَه ‘

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:560

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ