ہمارے مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ جو آدمی پانچوں نمازیں باجماعت اہتمام کے ساتھ ادا کرتا ہو وہ کبھی کسی مجبوری سے جماعت سے رہ جائے تو اس کے لیے دوسری جماعت کروانا جائز ہے ورنہ دوسری جماعت ہر ایک کیلیے کرواناجائز نہیں۔ کیا یہ موقف درست ہے اور دوسری جماعت کے لیے اقامت کہنی چاہیے یا نہیں؟
نہیں! کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ﴾ (۱)… اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔ (البقرہ:۲؍۴۳) میں حکم جماعت پانچوں نمازیں باقاعدہ اہتمام کے ساتھ باجماعت پڑھنے والوں کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ اسی حکم میں سب نمازی شامل ہیں ، خواہ باقاعدہ باجماعت پڑھنے والے ہوں، خواہ بے قاعدہ، خواہ اہتمام کے ساتھ باجماعت پڑھنے والے ہوں، خواہ بغیر اہتمام کے باجماعت پڑھنے والے، خواہ بلا جماعت پڑھنے والے۔ ہاں دوسری جماعت کے لیے بھی اقامت کہنی چاہیے۔