سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(814) قرآنی آیات پڑھ کر پانی پر دَم یا پلیٹ میں تحریر یا تعویذ بنا کر گلے میں ڈالنا

  • 25929
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2217

سوال

(814) قرآنی آیات پڑھ کر پانی پر دَم یا پلیٹ میں تحریر یا تعویذ بنا کر گلے میں ڈالنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآنی آیات پڑھ کر پانی پر دَم کرنا یا قرآنی آیات پلیٹ پر لکھ کرپینا یا قرآنی آیات لکھ کر تعویذ گلے میں ڈالنا مسنون ہے یا بدعت؟ (سائل: عطاء اللہ کوارٹر نمبر۱۲۶، ریلوے گارڈ گالونی کوئٹہ) (۱۴ فروری ۱۹۹۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

  دَم میں پھونک مارنی جائز ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے :

’ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ کَانَ یَنْفُثُ فِی الرُّقِیَّةِ‘(مصنف ابن ابی شیبة،مَنْ رَخَّصَ فِی النَّفْثِ فِی الرُّقَی،رقم:۲۳۵۶۴(ج:۸،ص:۴۴)

’’نبیﷺ دَم میں پھونک مارا کرتے تھے۔‘‘

قاضی عیاض رحمہ اللہ  فرماتے ہیں، دَم میں پھونکنے سے مقصود اس رطوبت اور ہوا سے برکت کا حصول ہے جو ذکر کی معیت میں نکلتی ہے جس طرح لکھے ہوئے ذکر کے دھوؤں سے تبرک کیا جاتا ہے۔

نیز اس کا مقصد نیک شگون لینا بھی ہو سکتا ہے جس طرح کہ دَم کرنے والے سے سانس الگ ہو رہی ہے اسی طرح مریض سے تکلیف اور مرض دُور ہو جائے۔ (فتح الباری،ج:۱۰،ص:۱۶۸)

اور صاحب ’’تیسیر العزیز الحمید‘‘(ج:۱،ص:۱۶۶) فرماتے ہیں، دَم طبِّ ربانی ہے پس جب مخلوق میں سے نیک لوگوں کی زبان سے دَم کیا جائے تو اللہ کے حکم سے شفاء ہو جاتی ہے۔

اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں ، دَم کرتے وقت پھونک مارنے سے منہ کی رطوبت ، ہوا اور سانس سے مدد لی جاتی ہے جو ذکر، دُعا اور مسنون دَم کے ساتھ نکلتی ہے اس لیے کہ دَم پڑھنے والے کے دل اور منہ سے نکلتا ہے پس جب یہ دَم باطنی اجزاء میں سے رطوبت ، ہوا اور سانس کے ساتھ مل جائے تو تاثیر کے لحاظ سے مکمل اور عمل کے لحاظ سے قوی ہو جاتا ہے اور ان کے مجموعے سے ایسی مجموعی کیفیت پیدا ہوتی ہے جیسا کہ مختلف دوائیوں کے باہم ملانے سے ہوتی ہے۔ (الطب النبوی،ص:۱۴۰)

امام احمد رحمہ اللہ  کے بیٹے کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے والد کو مریضوں کے لیے تعویذ لکھتے دیکھا اپنے اہل خانہ اور اہل قرابت کو تعویذ لکھ دیتے۔ اور عسر ولادت کی بناء پر عورت کو چاندی کے برتن یا لطیف چیز پر ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی تعویذ لکھ دیتے۔ (مسائل امام احمد بن حنبل،ج:۳،ص:۱۳۴۵)

ابن عباس رضی اللہ عنہما  کے تعویذ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:مصنف ابن ابی شیبۃ،ج:۸،ص:۲۷۔

نیز مروی ہے حضرت لیث رحمہ اللہ  اور مجاہد رحمہ اللہ  بیمار کو قرآن کی آیت لکھ کر پلانے میں کوئی حرج نہیں جانتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبة،ج:۸،ص:۲۸)

قرآنی آیات اور ثابت شدہ دعاؤں پر مشتمل تعویذ لکھنا اگرچہ جائز ہے لیکن میرے نزدیک راجح اور محقق بات یہ ہے کہ تعویذوں سے مطلقاً پرہیز کیا جائے۔ صرف ثابت شدہ دَم پر اکتفاء کی جائے ، اس بارے میں میرے قلم سے تفصیل ’’الاعتصام‘‘ میں چند ماہ قبل ہو چکی ہے۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:557

محدث فتویٰ

تبصرے