السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا قرآنِ پاک میں سے کوئی آیت یا سورۃ پڑھ کر پانی پر دم کرنا جائز ہے ؟ (محمد ایوب ہٹھان،ماتلی ضلع بدین ) (۴ اپریل ۲۰۰۳ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بظاہر جواز ہے ، ممانعت کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم دم کے لیے بالاجماع تین شرطیں ہیں۔
۱۔ اللہ کی کلام یعنی قرآن کے ساتھ ہو یا اللہ کے اسماء و صفات کے ساتھ ہو۔
۲۔ عربی زبان میں یا معروف المعنی الفاظ کے ساتھ ہو۔
۳۔ اس بات کا اعتقاد رکھا جائے کہ دم بذاتِ خود مؤثر نہیں بلکہ اس میں تاثیر اللہ کے حکم سے پیدا ہوتی ہے۔ (فتح الباری:۱۹۵/۱۰)
قاضی عیاض نے کہا ہے کہ دم( جس میں منہ کی ہلکی سی ہوا کے ساتھ ساتھ معمولی نمی بھی ہوتی ہے) کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی رطوبت یا اس کی ہوا سے برکت حاصل ہوتی ہے کیونکہ اس میں ذکر الٰہی کی آمیزش ہوچکی ہوتی ہے۔ (فتح الباری:۱۹۵/۱۰)
جن احادیث میں پینے کی اشیاء میں پھونک مارنے سے منع کیا گیا ہے اس کا تعلق پینے کے وقت سے ہے۔ چنانچہ ’’مستدرک حاکم‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے:
’لَا یَتَنَفَّسْ اَحَدُکُمْ فِی الْاِنَاءِ اِذَا کَانَ یَشْرَبُ مِنْهُ ۔‘ (المستدرك علی الصحیحین للحاکم،کِتَابُ الْأَشْرِبَةِ،رقم:۷۲۰۷)
’’آدمی جب پانی پیے تو پینے کے برتن میں سانس نہ لگائے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’فتح الباری‘‘ (۲۵۵/۱)میں فرماتے ہیں:
’وَالتَّنَفُّسُ فِی الْإِنَاء ِ مُخْتَصٌّ بِحَالَةِ الشُّرْبِ ۔‘
’’یعنی برتن میں سانس لینا پینے کی حالت کے ساتھ مخصوص ہے۔‘‘
چنانچہ’’صحیح بخاری‘‘ میں حدیث ہے:
’اِذَا شَرِبَ اَحَدُکُمْ فَلَا یَتَنَفَّسْ فِی الْاِنَاءِ۔‘ (صحیح البخاری، کتاب الوضوء، بَابُ النَّهْیِ عَنْ الِاسْتِنْجَاء ِ بِالیَمِینِ،رقم:۱۵۳)
’’جب تم میں سے کوئی شخص( کوئی چیز) پیے تو برتن میں سانس نہ لے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب