السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآنِ کریم ختم کرنے پر ’’سورۃ الناس‘‘ کے بعد ہر مصحف پر ایک مختصر دعا’اَللّٰهُمَّ انِِس وَحْشَتِی… یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ‘ اور کئی مصاحف پر ایک بہت طویل دعا (۱)، (ب) سے ی تک شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے حوالہ سے درج ہوتی ہے۔ کیا یہ دعائیں(پہلی خصوصاً) صحیح حدیث سے ثابت ہے یا ویسے ہی درج ہیں؟ اور کیا یہ پڑھنی چاہئیں؟ (پروفیسر سعید احمد لکھوی) (۲۳ جون ۲۰۰۰ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآنِ مجید کے ختم کرنے پر بسند صحیح نبیﷺ سے کوئی مخصوص دعا دعا ثابت نہیں۔ علامہ محمد عبدالسلام خضرت الشقیری فرماتے ہیں:
’ وَالدُّعَاءُ الَّذِیْ فِیْ آخِرِ الْمَصَاحِفِ لَا یَجُوْزُ التَّعَبُّد بِهِ قَطْعًا بَلْ هُوَ مَذْمُوْمٌ مَصْنُوْعٌ شَرْعًا لِاَنَّهُ مُخْتَرِعٌ وَ لَیْسَ مَاثُوْرًا… الخ ۔‘
’’قرآن کے اخیر میں جو دعا طبع کی جاتی ہے اس کے ذریعہ عبادت کرنا ناجائز ہے۔ بلکہ خود ساختہ ہونے کی وجہ سے یہ شرعاً مذموم اور ممنوع ہے کیونکہ نبیﷺ سے منقول نہیں۔ بلکہ یہ سب بدعت، گمراہی اور من گھڑت توسّل ہے۔اس کی قراء ت حلال نہیں اور نہ ہی مصاحف کے اخیر میں اس کی کتابت جائز ہے۔ قرآن و سنت کا فی و شافی ہیں۔ اللہ رب العزت نے سفہاء کی کم عقلی بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿أَوَلَم يَكفِهِم أَنّا أَنزَلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ يُتلىٰ عَلَيهِم إِنَّ فى ذٰلِكَ لَرَحمَةً وَذِكرىٰ لِقَومٍ يُؤمِنونَ ﴿٥١﴾... سورة العنكبوت
’’کیا ان لوگوں کے لیے یہ کافی نہیں کہ ہم نے تم پر ایسی کتاب نازل کی جو انھیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے کچھ شک نہیں کہ مومن لوگوں کے لیے اس میں رحمت اور نصیحت ہے۔‘‘ (السنن والمبتدعات،ص:۲۱۶)
علامہ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ختمِ قرآن پر کوئی معین دعا وارد نہیں لہٰذا آدمی کے لیے جائز ہے کہ نفع بخش دعاؤں میں سے جو چاہے پڑھ لے۔ مثلاً گناہوں کی بخشش طلب کرنا، جنت کا سوال، آگ سے نجات، فتنوں سے پناہ چاہنا اور فہم ِ قرآن کی توفیق مانگنا، اس کے ساتھ ساتھ قرآن پر عمل اور اس کے حفظ کی دعا کرنا اور اس قسم کی دیگر دعائیں کرنا جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔
چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ ختم ِ قرآن پر وہ ، اپنے اہل و عیال کو جمع کرکے دعا کرتے اور جہاں تک مجھے علم ہے، نبیﷺ سے اس سلسلہ میں کوئی شے وارد نہیں اور جو دعاء شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے ، مجھے اس کی صحت بھی معلوم نہیں ہوسکی۔ اگرچہ ہمارے مشائخ اور دیگر لوگوں میں مشہور ہے مگر ان کی کتابوں سے اس کا علم نہیں ہو سکا۔(بحوالہ فتاویٰ اسلامیہ:۱۲/۴۔۱۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب