السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن کے ضعیف پرزوں کو تلف کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ نیز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جلانے کے فعل کی دلیل سنت نبویﷺ سے ہے۔ ؟ دفن کرنا یا دریابُرد کرنا کیساہے؟ (سائل) (۸ نومبر۱۹۹۶ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید کے بوسیدہ اوراق یا پُرزوں کو کسی محفوظ مقام پر دفن کردیاجائے یا کسی کنوئیں یا نہر وغیرہ میں ڈال دیا جائے یا اوراق کو دھو ڈالا جائے۔ فتنے کا ڈر نہ ہو تو جلانے کا بھی جواز ہے۔ چنانچہ اسماعیلی کی روایت میں ہے:’أَنْ تُمْحَی أَوْ تُحْرَقَ ۔‘
یعنی ’’اوراق کو تلف کردیا جائے یا جلا دیا جائے۔‘‘
شارح’’صحیح بخاری‘‘ابن بطال نے کہا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن کتابوں میں اللہ کا نام لکھا ہوا ہو ان کو آگ سے جلا دینا جائز ہے۔ اور اس میں ان کا اکرام ہے اور پاؤں کے نیچے آنے سے بچاؤ ہے۔ طاؤس نے کہا جن چٹھیوں میں ’’بسم اللہ‘‘ لکھی ہوتی تھی انھیں اکٹھا کرکے جلا دیا جاتا تھا۔ عروہ نے بھی اسی طرح کیا۔ البتہ ابراہیم نے اس فعل کو مکروہ سمجھا ہے۔ (فتح الباری:۲۱/۹)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فعل حفاظت ِ قرآن کی نصوص کے پیش نظر تھا۔ اسی بناء پر فعل ِ ہذا کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی مستحسن سمجھا تھا۔ (فتح الباری:۲۱/۹)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب