السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا قرآن حرفاً حرفاً محفوظ ہے۔ جب کہ بخاری میں ’’سورۃ واللیل‘‘ کی تفسیر میں ہے کہ ایک صحابی کہتا ہے ﴿وَ مَا خَلَقَ﴾(اللیل:۳)کے الفاظ موجود نہیں تھے۔ شامی لوگ ایسا پڑھتے ہیں۔ اسی طرح کی بعض دوسری صحیح رویات موجود ہیں۔ (سائل) (۸ نومبر۱۹۹۶ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل علم کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ قرآن مجید کا نزول متعدد قراء توں پر ہوا ہے۔ مشارٌ الیہ قراء ت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بعض شاگردوں نے ان سے نقل کی ہے۔ جب کہ دیگر نے قراء ۃ مشہورہ کے مطابق نقل کی ہے۔ زیر نظر موجود کیفیت اثبات و اعتماد کی صورت میں منسوخ التلاوۃ ہے لیکن ابو الدرداء اور انکے رفقاء کو اس بات کا علم نہ ہو سکا۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’ثُمَّ هَذِهِ الْقِرَاءَةُ لَمْ تُنْقَلْ إِلَّا عَمَّنْ ذکر هُنَا وَمن عداهم قرؤوا وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْأُنْثَی وَعَلَیْهَا اسْتَقَرَّ الْأَمْرُ مَعَ قُوَّةِ إِسْنَادِ ذَلِكَ إِلَی أَبِی الدَّرْدَاء ِ وَمَنْ ذُکِرَ مَعَهُ وَلَعَلَّ هَذَا مِمَّا نُسِخَتْ تِلَاوَتُهُ وَلَمْ یَبْلُغِ النَّسْخُ أَبَا الدَّرْدَاء ِ وَمَنْ ذُکِرَ مَعَهُ وَالْعَجَبُ مِنْ نَقْلِ الْحُفَّاظِ مِن الْکُوفِیّین هَذِه الْقِرَاءَة عَن عَلْقَمَة وَعَن ابن مَسْعُودٍ وَإِلَیْهِمَا تَنْتَهِی الْقِرَاءَةُ بِالْکُوفَةِ ثُمَّ لَمْ یَقْرَأْ بِهَا أَحَدٌ مِنْهُمْ وَکَذَا أَهْلُ الشَّامِ حَمَلُوا الْقِرَاءَةَ عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ وَلَمْ یَقْرَأْ أَحَدٌ مِنْهُمْ بِهَذَا فَهَذَا مِمَّا یُقَوِّی أَنَّ التِّلَاوَة بهَا نسخت ‘ (فتح الباری:۷۰۷/۸)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب