السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بسم اللہ الرحمن الرحیم ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ کی ایک مستقل آیت ہے۔ اگر یہ آیت ہے تو دوسری سورتوں میںآیات کی تعداد میں تسمیہ کو آیت شمار کیوں نہیں کیا جاتا؟( ملاحظہ ہو حافظ صلاح الدین یوسف کی تفسیر والا قرآن احسن البیان۔ نیز تاج کمپنی کے قرآن میں ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ میں تسمیہ کو آیت شمار نہیں کیا جاتا۔ کیوں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
راجح بات یہ ہے کہ بسم اللہ ’’سورۃ فاتحہ‘‘ کی مستقل آیت ہے۔
’’سنن ابی داؤد‘‘ وغیرہ میں حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی تلاوت فرمائی۔ ’وَ عَدَّ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اٰیَة ‘ اور بسم اللہ کو مستقل آیت شمار کیا۔ (بحوالہ الاتقان،ص:۸۰)
اور اسی طرح ہر سورت کی بھی آیت ہے۔ ما سوائے ’’سورۃ توبہ‘‘ کے’’صحیح مسلم‘‘میں حدیث ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’أُنْزِلَتْ عَلَیَّ آنِفًا سُورَةٌ فَقَرَأَ: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ﴿إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ…الخ.۔‘ صحیح مسلم،بَابُ حُجَّةِ مَنْ قَالَ: الْبَسْمَلَةُ آیَةٌ مِنْ أَوَّلِ کُلِّ سُورَةٍ سِوَی بَرَاءَةٌ،رقم:۴۰۰)
کہ ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ اس کی تلات کا آغاز آپﷺ نے بسم اللہ سے فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورت کی آیت ہے۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ اس کو سورتوں کی آیات کی گنتی میں شمار کیوں نہیں کیا جاتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی حیثیت سورتوں کے درمیان فصل کی بھی ہے۔ چنانچہ ’’سنن ابی داؤد‘‘ وغیرہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت میں اس امر کی تصریح موجود ہے۔ اس بارے میں اہل تاج کمپنی کا موقف کمزور ہے۔ راجح ہر سورت کے شروع میں بسم الله شمار میں لانا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب